حالات کی ستم اور غربت کا مارا یہ بچہ گھر آکر اپنے والدین سے پوچھتا کہ میرے لئے کپڑے اور سوٹ بوٹ کہاں ہیں؟ جو میں سکول جا سکوں اور مختلف کھانے پینے کی چیزیں لے سکوں۔ ماں کہتی تھی کہ”میرے جگر ہم آپ کو ان سے بھی بہترین چیزیں دیں گے لیکن رمضان المبارک کو آنے دو
وحید ایک ذہین بچہ تھا لیکن اُس کے والدین بہت غریب تھے۔ محلے کے دوسرے لوگوں کے مقابلے میں چھ سالہ وحید کے والدین فقیروں سے کم نہ تھے۔ ۔۔ وحید کی عمر سکول جانے کی ہو گئی تھی لیکن ابھی تک کسی نے اسے بنیادی تعلیم دلانے تک کا نہیں سوچا تھا۔وہ کھیل کود کی نیت سےصبح سویرے ہی گھر سے نکلتا تھا لیکن اپنے عمر کے بچوں کو سکول جاتے دیکھ کر حیران ہوجاتا تھا کہ وہ کہاں جاتے ہیں اور کیوں جاتے ہیں؟ اُس کے ہمسایوں کے بچے ہاتھ میں مختلف رنگ کے بیگ اور کھانے پینے کی چیزیں لیکر جاتے اور وہ حسرت بھری آنکھوں سے اُن کو دیکھتا رہ جاتا تھا۔
یہی نہیں وہ تمام لڑکے لڑکیاں مختلف رنگ برنگ کے کپڑے اور مٹھائیاں‘ چاکلیٹ‘ بسکٹ‘ ٹافیاں‘ برفیاں‘ کیک‘ اور نہ جانے کیا کیا اپنے ٹیفن میں ڈالے جارہے تھے۔ حالات کی ستم اور غربت کا مارا یہ بچہ گھر آکر اپنے والدین سے پوچھتا کہ میرے لئے کپڑے اور سوٹ بوٹ کہاں ہیں؟ جو میں سکول جا سکوں اور مختلف کھانے پینے کی چیزیں لے سکوں۔ ماں کہتی تھی کہ”میرے جگر ہم آپ کو ان سے بھی بہترین چیزیں دیں گے لیکن رمضان المبارک کو آنے دو“۔ بچہ روز یہ سوال کرتا اور والدین کہتے تھے ”رمضان تو آنے والا ہے ہم اپنے بچے کو بہت کچھ دیں گے“۔ مہینے گزرتے گئے بچہ اس انتظار میں رہا کہ رمضان کب آئے گا لیکن وہ جلدی نہیں آیا۔
وحید روزانہ اپنے والدین سے پوچھتا ’چچا رمضان کب تک آئے گا؟ مجھے بھی دوسرے بچوں کی طرح کچھ خریدنا ہے‘۔ ایک دن وحید محلے کی مارکیٹ میں مٹی سے کھیل رہا تھا کہ ایک آدمی اپنے ساتھ بڑے بڑے بیگ لیکرایک دکان سے نکلے اور ایک بس میں سوار ہونے کیلئے گئے۔ دوکاندار نے اُسے چچا رمضان کہہ کر پکارا اور ہاتھوں میں ایک عینک لیے اس کے پیچھے لپکا۔’’رمضان چاچا‘‘ آپ کی عینک دکان میںرہ گئی تھی۔بچے نے جب یہ نام سنا تو باغ باغ ہوگیا اور اُس آدمی کا پیچھا کرتے ہوئے بس میں سوار ہوا اور اُس آدمی سے کہا کہ چچا رمضان میں پچھلے کئی مہینوں سے آپ کے انتظار میں ہوں‘ آپ آج آ ہی گئے۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ آپ آگئے میرے گھر میں آپ ہی کا انتظار ہورہاہے‘‘۔ وہ آدمی شروع میں توحیران رہ گیا لیکن پھر جیسے کچھ سمجھنے کے بعد وحید کی طرف دیکھنے لگا. دل ہی دل میں اس نے خود کو بتایا کہ ضرور بچے کو گھر کے بڑوں نے لالچ دیا ہوگا کہ ماہ رمضان کے اختتام پر اس کو عیدی ملے گی۔بچے نے کہا” چچا رمضان میرا گھر آگیا چلو نکلو میری امی اور ابو آپ کے انتظار میں ہیں کہ آپ آگئے تو وہ مجھے کپڑے‘ ٹافیاں اور بہت کچھ دینے والے ہیں تاکہ میں دوسروں کی طرح سکول جاسکوں اور دوسرے بچوں کی طرح کھیل کود سکوں“۔ وہ آدمی بڑے دانا اور نیک تھے‘ اپنے سامان کے ساتھ اُس بچے کے ساتھ گئے۔ بچہ اُس کولےکر اپنے گھر گیا اور شور مچایا کہ چچا رمضان آگئے ہیں۔ گھر پہنچ کر سامان کا بیگ اس آدمی سے اُس کے گھر والوں کو دے دیا تو بچے نے کہا پیسے بھی دے دو‘ چچا رمضان نے جیب سے بہت سارے پیسے بھی دئیے اور چل دیا بچہ بہت خوش تھا کہ آخرکار چچا رمضان آگئے لیکن اُن کے والدین حیران تھے کہ یہ کیا ماجرا ہوا۔۔۔؟؟؟ بہرحال انہوں نے اُس آدمی کا شکریہ ادا کیا اور وہ چلا گیا۔
پیارے بچو! یہ ایک خداترس بندے اور غریب بچے کی کہانی ہے جس کے والدین نے بچے کو عید رمضان کے نام سے مطمئن رکھا ہوا تھا۔ غربت کی وجہ سے وہ بے بس تھے اور دوسرے بچوں سے متاثر ہونے کی وجہ سے وہ اپنے بچے کو دلاسا دیتے تھے۔ لیکن خدا کا کرنا یہ ہوا کہ اچانک بچے نے خود ایک آدمی جس کا نام رمضان تھا کوپکڑ کر لے آیا۔ وہ امیر اور خدا ترس تھا اس لئے سمجھ گیا اور بچے کو وہ کچھ دے دیا جو وہ چاہتا تھا اب جب ہم اپنے معاشرے میں دیکھتے ہیں تو ہزاروں ایسے بچے ہیں جو امداد اور مدد کی انتظار میں ہیں۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ بہت کم ہیں جو وحید جیسے بچوں کی مدد کرے۔ اُن کی حسرتوں کو سمجھے اور بلا تامل مدد کرے۔ہمارے معاشرے میں ایسے بچوں کی کوئی کمی نہیں جو نادار اور غریب ہیں۔ وہ سکول کی دنیا سے دور ہیں۔ وہ بھی سکول جانا چاہتے ہیں لیکن ہر ایک چچا رمضان کے انتظار میں ہے۔ اُن کے والدین ہمیشہ اُن کو ”رمضان“ کے انتظار کی نوید سناتے ہیں اور عید کے موقع پر ہی لوگوں کی عیدی سے کپڑے اور کھانا پینا دیتے ہیں۔اُس دن ہی وہ عیدی کے پیسوں سے کچھ خریداری کرتے ہیں‘ بصورت دیگر اُن کو یہ
موقع نصیب نہیں۔ ہمارے ہمسائے میں لوگ بھوکے پیاسے ہوتے ہیں لیکن ہم اُن کی اِن حسرتوں اور احساسات کو نہیں سمجھتے ہیں۔ ہمارے والدین ہمیں صبح تیار کرکے بڑے شان سے سکول روانہ کرتے ہیں مگر ہمارے ہمسائے کے بچے دیکھتے رہ جاتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان ہمیں ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے یہ تعلیم دی تھی کہ اپنے ہمسایوں رشتہ داروں کا بہت خیال رکھو۔ یہ کونسا ایمان ہے کہ آپ خود تو پیٹ بھر کر کھائیں لیکن آپ کا ہمسایہ بھوکا رہے۔ اُس کے بچے امید اور حسرت پر جئیں اور آپ مزے کریں۔ اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں فرماتے ہیں”اور خداکی ہی عبادت کرو اور کسی کو اُس کا شریک نہ بناؤ اورماں باپ اور قرابت داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار پڑوسیوں اوراجنبی پڑوسیوں اور پہلو میں بیٹھنے والے مصاحین اور اپنے زر خرید لونڈیوں اور غلام کے ساتھ احسان کیاکرو بیشک اللہ اکڑ اکڑکے چلنے والوں اور شیخی بازوں کو دوست نہیں رکھتا ۔یہ وہ لوگ ہیں جو خود تو بخل کرتے ہی ہیں اور لوگوں کو بھی بخل کا حکم دیتے ہیں اور جو مال اللہ نے اپنے فصل وکرم سے اُن کو دیا ہے اُسے چھپاتے ہیں اور ہم نے کُفران نعمت کرنے والوںکے واسطے سخت ذلت کا عذاب تیار کر رکھا ہے“۔ (القرآن‘النسائی:۵۳)۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا” وہ مومن (مسلمان) نہیں جس کا ہمسایہ اُس کے رویے سے محفوظ نہیں“۔ ایک اور روایت میں آپ کو ایک عورت کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ رات دن عبادت کرتی ہے‘ روزہ رکھتی ہے اور وہ سخاوت کا پیکر بھی ہے لیکن وہ ہمسایوں کو بُرا بھلا کہتی ہے اور ہمسائے اُس سے خوش نہیں۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اُس کے لئے جہنم تیار ہے۔ ایک اور عورت کے بارے میں بتایا گیا کہ وہ فرض عبادات بجالاتی ہے لیکن زیادہ نہیں لیکن اُس سے اُس کے ہمسائے بہت خوش ہیں۔ اللہ کےحضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ نے اُس کے لئے جنت فردوس بنا رکھی ہے“۔ آیت قرآن اور حدیث مبارکہ سے یہ بات ثابت ہوئی کہ ہمیں ہمسائیوں اور قرابت داروں کا بہت خیال رکھنا چاہئے۔ کیوں بچو!آپ کا کیا خیال ہے کیا کبھی آپ نے اپنے ہمسائیوں اور غریبوں کے بارے میں سوچا ہے؟ اُن بچوں کا بھی سوچیں جو سال بھر عیدی کے انتظار میں ہوتے ہیں۔ ”درد دل کے واسطے پید اکیا انسان کو ‘ ورنہ کیا کچھ کم نہ تھے کروبیاں“
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں