(ہفتہ وار درس سے اقتباس)
ایمان کے تین درجات ہیں
انگریز جا رہا تھا دیکھا کہ ایک عدالت کے باہر ایک صاحب کو پکڑا ہوا ہے لوگ اکٹھے ہیں اس کی پیشی ہے فیصلہ ہونا ہے آج دیکھا تو وہ ایک صاحب تھے کہنے لگا یہ وہی تو ہے جس نے میرے ہاں مزدوری کی تھی کھدائی کا کام ہو رہا تھا۔ سونے کی دو اینٹیں نکلی تھیں۔ اور تو نے اپنی پگڑی اتار کے اس میں باندھ لی تھیں اور شام کو میرے پاس مزدوری لینے آیا تھا۔ اور تو نے کہا تھا جناب آپ کی چیزیں کھدائی کے دوران نکلی ہیں میں نے اسے کہا کہ کہاں سے نکلیں سونے کی اینٹیں کہنے لگا کھدائی کے دوران یہ آپ کی ہیں۔
میں نے کہا پتہ ہے یہ کیا ہے کہنے لگا ہاں یہ سونے کی اینٹیں ہیں کہنے لگا تجھے احساس نہیں ہوا تھا۔ کہ تو ان کو چھپا لیتا کہنے لگا مجھے میری مزدوری دو جو چار آنے یا سوا روپیہ تھی۔ وہی دے دو۔ کہا تجھے علم نہیں ہے یہ سونا ہے کہا ہاں علم ہے۔ یہ میری چیز نہیں ہے۔ چیز آپکی ہے۔ میری مزدوری ہے۔ اور میں نے تجھے اس میں سے حصہ دینا چاہا تھا تو نے حصہ بھی نہیں لیا تھا۔ تو نے کہا تھا میں صرف اپنی مزدوری لوں گا۔ تو وہی نہیں ہے؟ کہنے لگا ہاں وہی ہوں تو آج تجھے کس جرم میں پکڑا ہوا ہے؟لوگ کہنے لگے بچی کے کانوں میں چھوٹی سی بالیاں تھیں۔ اس نے اتارنا چاہیں۔ اتر نہیں سکیں کان چیر دئیے اس نے اور بالیاں اتار لیں اور رنگے ہاتھوں پکڑا گیا۔ انگریز حیران ہوا سونے کی اینٹیں تو نے چھوڑ دیں مگردو چھوٹی چھوٹی بالیاں؟ انگریز بولا یہ جو کہہ رہے ہیں صحیح کہہ رہے ہیں؟ کہنے لگا ہاں سچ کہہ رہے ہیں ۔ وہ کیسے؟ تو نے تو کلو کے حساب سے سونا چھوڑ دیا تھایہ ماشوں کے حساب سے ہے؟ بڑا عجیب جواب دیا۔ کہنے لگا پہلے ایمان اتنا مضبوط تھا کہ سونے کی کوئی حیثیت نہیں تھی۔ سونا اور مٹی برابر تھا۔ اب ایمان اتنا کمزور ہو گیاہے۔ کہ انسان کی جان کی کوئی حیثیت نہیں چند ماشے سونے کی حیثیت ہے۔ ایمان کی تین سطحیں ہیں انبیاءکرام علیہ السلام کا ایمان ہمیشہ بڑھتا رہے گا۔ فرشتوں کا ایمان ایک سطح پر رہے گا۔ اور مومن کا ایمان یابڑھتا رہے گایا گھٹتا رہے گا۔ یا کم ہو گا یا زیادہ ہوگا۔ اور جب مومن کا ایمان کم ہو گا اس سے اعمال چھوٹنے شروع ہو جائیں گے۔ یہ اس بات کی علامت ہے میرا ایمان کمزور ہو گیا ہے۔ جب بھی ایمان کمزور ہو گا اس کی تنہائیاں اس کو متاثر کریں گی وہ تنہائیوں میں اللہ کی طرف رجوع نہیں کرے گا۔ وہ تنہائیوں کو نعمت نہیں سمجھے گا۔ وہ تنہائیوں میں اللہ کی عبادت نہیں کرے گا۔ وہ تنہائیوں میں سجدے،رازو نیاز نہیں کرے گا۔ وہ تنہائیوں میں پھر برائیوں کی طرف مائل ہو گا۔
ایمان قبر تک کا ساتھی ہے
اور جب ایمان کمزور ہو گا پھر اس کا نماز کو جی نہیں چاہے گا۔ اعمال کو جی نہیں چاہے گا۔ اس لئے میرے محترم دوستو!میں آپ سے ایک بات عرض کر رہا ہوںاپنے ایمان کو جانچتے رہیں۔ ایمان قبرتک کا ساتھی ہے۔ اور حشر کا ساتھی ہے بیماریوں سے کتنے پریشان ہوئے ‘روزگار کی کمی سے، معاش کی کمی سے، رزق کی تنگی سے، کتنے پریشان ہوئے۔ ایمان کمزور ہوا مگر پریشان ہی نہیں ہوا۔ دل کو لگی ہی نہیں چھوٹا سا ایک گناہ ہوا تجھے اس نے پریشان نہیں کیا۔ چھوٹا سا کانٹا چبھایا گرمی کی دھوپ کی ایک لہر لگی اس نے تیری سسکاری نکال دی تجھے پریشانی ہوئی۔ گناہ سے پریشانی نہ ہوئی۔ اللہ کی نافرمانی سے پریشانی نہ ہوئی اور گناہ نے تجھے اللہ سے دور کر دیا ۔ تو ندامت کر کے اللہ کے قریب ہو جاتا۔ اس گناہ نے تجھے اللہ سے اور دور کر دیا فرمایا بعض گنہگار ار ایسے ہوتے ہیں۔ جو گناہ کر کے اللہ کے قریب ہوتے ہیں۔ پوچھا وہ کیسے کہا گناہ کرنے کے بعد ان کے اندر ندامت ہوتی ہے۔
ایک دن مفتی عبید اللہ صاحب تشریف لائے، شفقت فرماتے ہیں۔ اللہ والوں کی باتیں بڑی ہوتی ہیں فرمانے لگے احساس گناہ سب سے بڑی عبادت ہے۔ افضل العبادة ۔ احساس گناہ ندامت گناہوں کا احساس۔ اپنی کمی کا احساس۔ رب سے جدا ہونے کا احساس کہ اے اللہ میں تجھ سے دور ہو گیا ۔ یا اللہ میں گناہوں میں مبتلا ہو گیا۔ اللہ میری صبحیں راتیں میری شامیں سیاہ ہو گئیں ۔ یا اللہ دعاﺅں کی مناجات ختم ہو گئیں۔ عبادت کی حلاوت ختم ہو گئی اللہ کوئی ایک رکعت ایسی نصیب ہو جاتی جس میں میں تیرے ساتھ کھڑا ہو کے ملاقات کرتا ۔ اللہ کوئی لمحہ ایسا نصیب ہو جاتا جس میں بیٹھ کے تجھ سے باتیں کرتا۔ اے اللہ ایک گھڑی ایسی نصیب ہو جاتی جس میں تجھے مناتا۔ اے اللہ میں ہوتا تو ہوتا۔ الٰہی میں تیرا تو میرا میں تیرا ۔
الٰہی کوئی تجھ سے کیا مانگتا ہے
الٰہی میں تجھ سے تجھے مانگتا ہوں
فقیر سے موتی لیتے جاﺅ
یہ کیفیت افضل العبادت ہے۔ فرمانیلگے آپ کے پاس بھی یہ آدمی آئے بیٹھے ہیں مجھ سے فرمانیلگے ان کے اندر احساس ہے بیماری کا احساس ہی نہ ہوتا تو کیوں آتے معلوم ہوا احساس ہے بیماری کا تو تبھی آئے ہیں علاج کیلئے جب یہ احساس گناہ ختم ہو جاتا ہے پھر علاج نہیں ہوتا۔ اور جب علاج نہیں ہوتا۔ تو مرض بڑھتا چلا جاتا ہے۔ اور اس بڑھے ہوئے مرض کو ایک وقت آتا ہے وہ لا علاج ہو جاتا ہے ۔ اور مومن کا مرض لاعلاج کس وقت ہوتا ہے جب اس کا سارا دل سیاہ ہو جاتا ہے۔ اور آج ایک موتی لیتے جاﺅ فقیر سے جب سارا دل سیا ہ ہو جاتا ہے احساس ندامت نہیں ہوتا گناہوں کا احساس نہیں ہوتا جب سارا دل سیاہ ابھی نہیں ہوتا تو گناہوں کا احساس باقی رہتا ہے۔ جس کے اندر گناہوں کا احساس ہے جس کے اندر اللہ کی نافرمانی کا احساس ہے جس کے اندر ایمان اعمال اور تقویٰ کے ٹوٹنے اور چھوٹنے کااحساس ہے وہ ذرا سنبھل کے رہے ابھی ایمان بچا ہوا ہے۔ ( جاری ہے )
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں