اگر روزے دار کے دل میں رمضان میں خیر کی رغبت پیدا ہوتی ہے تو رمضان کے بعد یہ کیفیت ختم نہیں ہوتی بلکہ خون کی طرح اس کی رگ و پے میں سرایت کرجاتی ہے جس سے اس کے اندر جوش و ولولہ پیدا ہوتا ہے‘ یہی ’’داخلی اعتماد ہے جس کا سرچشمہ باطن ہے۔
نمازی اللہ تعالیٰ کے حضور میں عاجزی و انکساری کے عالم میں کھڑا ہوتا ہے اللہ تعالیٰ سے سرگوشی کرتا ہے اور اس سے انتہائی قربت محسوس کرتا ہے جب نماز سے فارغ ہوکر اپنے کاموں میں مصروف ہوتا ہے تو وہ اس روحانی کیفیت سے غافل ہوجاتا ہے اسے ہمہ وقت اللہ تعالیٰ سے براہ راست تعلق کی بھی ضرورت ہے۔ یہ ہمہ وقتی روحانیت نماز کےمختصرلمحات میں حاصل نہیں ہوتی‘ یہ صرف روزے ہی میں ممکن ہے۔ چنانچہ اگر نماز میں جزوقتی روحانیت ہے تو روزے میں کل وقتی روحانیت‘ روزہ دار ہر وقت عبادت میں ہے خواہ وہ کام کررہا ہو یا روزی کمارہا ہو‘ وہ امتشال اوامر اور اجتناب نواہی کو عملی جامہ پہنائے ہوئے ہے‘ ایسا کون سلیم الفطرت آدمی ہوگا جو عبادت میں ہوتے ہوئے کوئی برا کام کرے؟ یقیناً روزے دار کو ایک داخلی طاقت برائی سے روکتی ہے‘ اسے ایک عالم سے دوسرے عالم میں منتقل کردیتی ہے اگر روزے دار کو تقویٰ کا احساس نہ ہو تو اسے بھوکا اور پیاسا رہنے کے علاوہ کیاملا؟روزے کا اثر پورے سال:روزہ سے پیدا ہونے والی یہ نفسیاتی قوت ماہ رمضان کے ختم ہونے سے ختم نہیں ہوتی کیونکہ یہ ماہ روحانی بیداری کا سیزن ہے‘ اس کا اثر بعد میں بھی باقی رہتا ہے انسان جب اس طویل مدتی روحانیت کے راستے پر گامزن ہوتا ہے تو روزے کا زمانہ ختم ہونے کے بعد بھی وہ اس کے ان اثرات سے مستفیض ہوتا رہتا ہے جنہوں نے اس کی روح کو حیات نو بخشی تھی وہ عبادت کی لذت سے محظوظ ہوتا ہے۔ اپنے اندر ایک لامحدود قوت محسوس کرتا ہے یہ کافی نہیں ہے کہ لوگ آپ پراعتماد کریں اور آپ کا باطن اضطراب کا شکار ہو‘ یہ’’خارجی اعتماد‘‘ آپ کے کس کام کا؟ ’’داخلی اعتماد‘‘ سے ہی آپ کو ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں ہمت و حوصلہ ملے گا۔ پختہ ایمان اس اعتماد کا سرچشمہ ہے‘ اگر ہر مسلمان دینی تعلیمات کا پابند ہوتا ہے تو اس سے اس کے داخلی اعتماد میں پختگی آتی ہے‘ ایمان کے شعائر کی تکمیل اس اعتماد کیلئے مددگار ثابت ہوتی ہے۔ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ روزے کے اثرات پورے سال ختم نہیں ہوتے ہیں‘ اگر روزے دار کے دل میں رمضان میں خیر کی رغبت پیدا ہوتی ہے تو رمضان کے بعد یہ کیفیت ختم نہیں ہوتی بلکہ خون کی طرح اس کی رگ و پے میں سرایت کرجاتی ہے جس سے اس کے اندر جوش و ولولہ پیدا ہوتا ہے‘ یہی ’’داخلی اعتماد‘‘ ہے جس کا سرچشمہ باطن ہے۔جہاں تک روزے کے جسمانی فوائد کا تعلق ہے تو اس کے متعلق اتنا لکھا گیا کہ وہ مسلمان کے قبیل کی چیز ہوگئے میرے گفتگو کا موضوع صرف روزے کے نفسیاتی فوائد ہیں۔زمانہ قدیم میں روزہ: انسائیکلوپیڈیا آف برٹانیکا کا کہنا ہے کہ اکثر مذاہب کے پاس روزے فرض اور واجب قرار دئیے گئے ہیں چنانچہ زمانہ قدیم میں مصر کے لوگ ہر مہینے میں تین دن روزہ رکھتے تھے‘ مشہور فلاسفر سقراط جس کا زمانہ 470 سال قبل مسیح ہے جب اسے کسی اہم موضوع پر غوروفکر کرنا ہوتا تو وہ دس دن روزے رکھ لیتا تھا اور بقراط کو اس حیثیت سے اولیت حاصل ہے کہ اس نے روزہ کے طبی فوائد پر سیرحاصل بحث کی ہے‘ لہٰذا اپنی تحقیق کے پیش نظر وہ مریضوں کو روزہ رکھنے کی ہدایت کرتا اور کہا کرتا تھا کہ ہر انسان کے اندر ایک ڈاکٹر ہے اور یہ ضروری ہے کہ ہم اپنے اندرونی ڈاکٹر کی معاونت کریں تاکہ وہ کماحقہ اپنی ڈیوٹی انجام دےسکے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں