ایک ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ طلاق ہوجانے کی صورت میں قسمت کو کوسنے کے بجائے صحت مندسرگرمیوں کو اپنانا ضروری ہے۔ خود کو مصروف کرلیں ورنہ ہر پرانی چیز کے ساتھ ایک میٹھی مگر سلگتی ہوئی یاد وابستہ ہے آپ کیسے ان سب احساسات سے دامن چھڑا سکتے ہیں
شاہد حسین ‘ اسلام آباد
آج کا جدید معاشرہ صنعتی انقلاب کے باعث ترقی کے زینے تیز رفتاری سے طے کررہا تھا کہ سرمایہ داری کے بحران میں الجھ کر رہ گیا۔ عالمی معیشت تنزلی کا شکار ہو تو لازمی طور پر اس کا اولین ہدف عام آدمی اور اس کا گھرانہ ہوتا ہے۔ بیروزگاری بڑھے یا اخلاقی اقدار متاثر ہوں ہر طرح کی صورتحال‘ بے چینی اور سماجی سرکشی کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہے۔ اگر عوام میں تشویش بڑھتی ہے تو خاندان کی اکائی اپنا جغرافیہ بدل لیتی ہے۔آپ خاتون خانہ ہوں‘ طالبہ ہوں‘ بیٹی‘ بہن یاماں اور بیوی ہر رشتہ میں آپ سے ڈھیروں توقعات وابستہ کی جاتی ہیں کیونکہ بہرحال عورت کو بڑا دل رکھنے والی اور ایثار پسند ہستی کہا جاتا ہے اور اس کی گھٹی میں وفا ہے۔ موجودہ مالی و معاشی بحران کے باعث اہلیت اور معیار کے مطابق ملازمتوں کا ملنا جوئے شیر لانے کے برابر ہے۔ پرانی ملازمتیں کوئی سونے کی اینٹیں تو نہیں کہ انہیں سیف یا لاکروں میں تالا لگا کے رکھ دیا جائے۔ کاروبار خراب تر ہونے کی صورت میں ملازمین کی چھانٹی کرنا سرمایہ داروں کی ضرورت بنتا جارہا ہے اگر آپ کسی ایسے شوہر کی بیوی‘ بہن یا ماں ہیں تو آپ کی ذمہ داریاں بڑھ جاتی ہیں۔
تعلق قائم رکھنے میں دلچسپی کا مظاہرہ: زندگی میں دھوپ اور چھاؤں کا ٹکراؤ تو ہوگا۔ وہ جو کہتے ہیں کہ کبھی کے دن بڑے تو کبھی کی راتیں۔ پس کرنا آپ کو یہ ہے کہ ان کے چڑچڑے لہجے کو برداشت کرنا ہے۔ ہم جانتےہیں کہ برداشت کرنا آسان کام نہیں۔ خاص طور پر اس وقت جب کوئی آپ کی عزت نفس پر حملہ کرے۔ آپ کے کردار پر شک کرے۔ آپ کے ماضی کا کوئی کمزور لمحہ تنقید کی زد میں آجائے اور آپ کو بُرا بھلا کہنے میں کوئی آپ کا اپنا ہی قطعی رعایت کا ثبوت نہ دے۔ ان دنوں طلاق کی شرح اسی وجہ سے بڑھ گئی ہے کہ میاں بیوی ایک دوسرے کی شخصیت سے بہت جلد مایوس ہونے لگتے ہیں۔ وہ اپنی زندگیوں میں کسی معجزے کی تلاش کرتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی راتوں رات بدل کر رہ جائے وہ بہت جلد صبر کا دامن چھوڑ کر ایک دوسرے کے مزاج‘ رویوں اور عادات میں ناپسندیدگی کا مظاہرہ کرتے ہیں اور پٹڑی بدلنے کی فکر میں رہتے ہیں۔ یا تو وہ ایک دوسرے کے لیے اجنبی ہوکر وقت گزارتے رہتے ہیں یا پھر لعن طعن کرکے شرع اور قانون کا سہارا لے کر ایک دوسرے کو آزاد کردینے میں عافیت سمجھتے ہیں۔
کچھ لو کچھ دو کا فارمولہ: ہر رشتہ میں کچھ لو کچھ دو کا نظریہ کارفرما رہتا ہے۔ آپ خاتون خانہ ہیں اور اگر مادیت کے پہلو سے زندگی میں کچھ سرمایہ کاری نہیں کرسکتیں تو گھریلو اور خانہ داری‘ بچوں کی تربیت‘ روزانہ کی پڑھائی (ہوم ورک) شوہر کی ضروریات‘ گھرداری کے عمومی مسائل حل کرنے کی ممکنہ کوشش کرتی رہیے۔ اگر آپ یوٹیلٹی بلز کی ادائیگی کرسکتی ہیں‘ کریڈٹ کارڈ کو غلط استعمال نہ کرتی ہوں‘ گھر کے ایسے کام جو شوہر نے کرنے تھے نبٹا سکتی ہوں تو یہ شوہر کی ایسی معاونت ہے جو ہر عورت شاید نہ کرپائے۔
مردوں کا یہ کہنا کہ کھانا تو باورچن بھی پکاسکتی ہیں گویا وہ کہنا چاہتےہیں کہ پھر عورتوں کی گھروں میں کیا ضرورت؟ یہ انتہائی سفاکی اور خودغرضی سے کیا جانے والا تبصرہ ہے۔ اس لیے گھریلو معاشرت میں بیوی کا کردار مشکوک نہیں ہوتا کیونکہ بہرحال گھر عورت ہی کی حکمت عملی سے چلتا ہے۔
تعلق بوجھ نہ بنائیے: پھول انتہائی نازک ہوتے ہیں مگر سخت چٹیل کھردری اور کانٹوں بھری شاخوں کے ساتھ تعلق تو نہیں توڑ دیتے۔ انہی شاخوں کے ساتھ بڑھتے پھولتے ہیں اور ٹہنیوں کی سختی پر نہ جائیے۔ پھولوں کی نازکی اور رومانیت کے رشتے کو محسوس کیجئے۔ اپنے دل میں گنجائش نکالئے۔ ایک دوسرے کے مسئلوں کو غور سے سنیے اور ماحول کو خوشگوار بنانے کی کوشش کیجئے صرف اپنی ضروریات کی تکمیل کا تقاضا نہ کریں۔ یہ کوئی چھوٹی موٹی نیکی نہیں ہوگی کہ آپ اپنے شوہر یا بیوی کیلئے کچھ پس انداز کریں۔ اگر رشتہ سخت معیار پر نہ پرکھا جائے تو اس تعلق میں جان پڑجائے گی۔ آپ بھی لچکدار رویہ اپنائیے۔ یہ رشتہ مزید استوار ہوگا اور پائیداری کے مرحلہ تک پہنچے گا۔
رشتوں کو مضبوط کرنے کی تدابیر: اپنے جسمانی خدوخال پر توجہ دیجئے‘ اچھی غذا‘ بھرپور نیند‘ ورزش اور مختلف مساجوں سے اپنی جسمانی حالت بہتر بنائیں۔ غم و غصہ اور ذاتی اعتماد کے اظہار کیلئے ضروری نہیں کہ ایک دوسرے پر تشدد کیاجائے۔ ایک مشہور کلینیکل سائیکولوجسٹ کہتی ہیں کہ جذباتی و معاشی بحران میں ایک دوسرے کی سنگت کا ہونا ضروری ہے‘ خلیجوں کو پاٹنے کی ضرورت ہے۔ صبح سویرے بیدار ہوں‘ نماز پڑھیں‘ تلاوت کریں‘ واک پر جائیں‘ دوستوں سے گپ شپ کریں۔ ذہنی تکان کے کاموں سے بچیں۔ تمام ایسے دوستوں اور احباب سے کنارہ کشی کرلیں جو عزت نفس مجروح کرتے ہوں۔ ایک ماہر نفسیات کا خیال ہے کہ طلاق ہوجانے کی صورت میں قسمت کو کوسنے کے بجائے صحت مندسرگرمیوں کو اپنانا ضروری ہے۔ خود کو مصروف کرلیں ورنہ ہر پرانی چیز کے ساتھ ایک میٹھی مگر سلگتی ہوئی یاد وابستہ ہے آپ کیسے ان سب احساسات سے دامن چھڑا سکتے ہیں۔ جم جائیں۔ پانچ وقت نماز پڑھیں‘ ہروقت ذکر وازکار کریں‘ کوئی کھیل کھیلیں‘ کچھ لکھیں۔ یعنی اپنا ماحول بدلنے کی کوشش کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں