ہر شخص کو راستے اور میدان میں جتنا ہوسکے ننگے پاؤں چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ البتہ پکے فرش والے کمروں میں چپل وغیرہ پہن کر ہی چلنا چاہیے کیونکہ پختہ فرش پر ننگے پاؤں تلوؤں چلنے سے جسم پرناموافق اثر پڑتا ہے۔
ایک زمانہ تھا جب مٹی کو وسیع پیمانے پر ذریعہ علاج بنایا جاتا تھا لیکن اب پچھلی صدی سے اسے ازسر نو دافع امراض کے طور پر استعمال کیا جانے لگا ہے۔
ماہرین کو مختلف تجربوں کے دوران اندازہ ہوا کہ مٹی کی قوتوں کا انسانی جسم پر حیرت انگیز اثر ہوتا ہے۔ خصوصی طور پر رات کے وقت ظاہر ہوتا ہے۔ اس سے جسم میں تازگی‘ جوش اور قوت پیدا ہوتی ہے۔ ان تجربات نے انہیں یقین دلا دیا کہ گیلی مٹی‘ زخموں اور امراض جلد کیلئے قدرتی پٹی (Bandage) ثابت ہوتی ہے۔ مٹی میں موجود عناصر اس لیے جسم کی مرمت کرتے ہیں کہ جسم انہی عناصر کی ایک خاص ترکیب سے بنتا ہے۔
ایڈولف جست (1838-1936ء) جو جدید دور میں فطری علاج کے ممتاز ماہرین میں سے تھے‘ ان کا کہنا ہے تمام امراض ماسوائے آج کے دور کے نفسیاتی عوارض‘ محض رات کو مٹی پر سونے کی عادت ڈالنے سے دور ہوسکتے ہیں۔ اگر انسان‘ فطرت کے قریب تر آجائیں‘ رات مٹی کے فرش پر سونے یا لیٹے رہنے کو اپنارویہ بنالیں تو بیماریوں کے بارےمیں ان میں پایا جانے والا خوف اپنے آپ دور ہوجائے گا کیونکہ زمین کے ساتھ لگنے سے جسم کی تھکاوٹ اور کسلمندی کوسوں دور بھاگ جاتی ہے۔ بدن میں چستی اور قوت آجاتی ہے اور سوکر اٹھنے کے بعد جسم میں ایک نئی طاقت کا احساس ابھر آتا ہے۔
دن بھر ننگے پاؤں چلتے رہنا (بشرطیکہ بہت سردی نہ ہو) اچھی صحت اور حقیقی خوشی حاصل کرنے کا مؤثر طریقہ ہے۔ مرد ننگے پاؤں چل کر زمین سے بڑی قوت حاصل کرسکتے ہیں۔
ہر شخص کو راستے اور میدان میں جتنا ہوسکے ننگے پاؤں چلنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ البتہ پکے فرش والے کمروں میں چپل وغیرہ پہن کر ہی چلنا چاہیے کیونکہ پختہ فرش پر ننگے پاؤں تلوؤں چلنے سے جسم پرناموافق اثر پڑتا ہے۔
قدیم امریکی باشندے (انڈنیز) مٹی کے ذریعہ علاج کو بڑی اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا عقیدہ ہے کہ پتوں بوٹیوں اور ہوا میں شفا بخشی کی بڑی طاقت موجود ہوتی ہے۔ لیکن غور کیا جائے تو پتے اور بوٹیاں‘ یہ سب کچھ مٹی سے ہی حاصل کرتے ہیں۔ وہ لوگ اپنے بیمار افراد کو گردن تک مٹی میں دبا کر چند گھنٹے اسی حالت میں رکھنے کے بعد باہر نکال لیتے ہیں۔ اس طرح مریضوں کا روگ کافی حد تک دور ہوجاتا ہے۔
مٹی میں مڑھ دینا
نیچر کیور کے معالجین متعدد امراض کے علاج کیلئے گیلی مٹی کو استعمال میں لارہے ہیں۔ آئے دن اس کا استعمال بڑھ رہا ہے۔ پرانے ورم‘ سوزش (جو اندرونی بیماریوں کا نتیجہ ہوتے ہیں) اور موچ وغیرہ کے مریضوں کیلئے گیلی مٹی بہت مفید پائی گئی ہے۔ مٹی کے استعمال کے ساتھ ساتھ مریض کی خوراک اور چند دیگر پرہیزوں کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔
مڈٹریٹمنٹ کولڈواٹر ٹریٹمنٹ (ٹھنڈی پٹی) پر فوقیت رکھتا ہے کیونکہ کیچڑ میں نمی اور ٹھنڈک نسبتاً زیادہ عرصہ تک برقرار رہتی ہے۔ کیچڑ کی ٹھنڈی نمی‘ جلد کے مساموں کو کشادہ کرکے‘ خون کو بیرونی سطح کی طرف کھینچتی ہے جس سے جسم کے اندر مائعات کے اجتماع میں کمی واقع ہوجاتی ہے اور درد میں افاقہ ہوجاتا ہے۔ حرارت کی شعاریزی (ریڈی ایشن) میں اضافہ ہوتا ہے اور جسم سے کمزور مادوں کا اخراج بھی عمل میں آتا ہے۔مڈپیک بنانے کی مٹی‘ سطح زمین سے تقریباً دس سینٹی میٹر نیچے سے لی جاتی ہے اور اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ اس میں کنکر اور دیگر کثافتیں نہ ہوں۔ پھر اس میں گرم پانی ملا کر ایک لیپ (پیسٹ) تیار کیا جاتا ہے‘ پھر کپڑے کے ایک ٹکڑے پر اسے پھیلا دیا جاتا ہے۔ اس ٹکڑے کا سائز جسم کے مطلوبہ حصے کی ضرورت کے مطابق ہوتا ہے۔ مثلاً پیٹ پر لگانے کیلئے اس پیک کا سائز (بالغوں کیلئے) 20 سینٹی میٹر ضرب 10 سینٹی میٹر ضرب 25 سینٹی میٹر ہونا چاہیے۔
مڈپیک‘ عام کمزوری اور اعصابی خلل سے متعلقہ بیماریوں کے علاج کیلئے بے حد مفید پائے گئے ہیں۔ بخار‘ لال بخار‘ خسرہ اور انفلوئنزا کا بھی کامیاب علاج کیا گیا ہے۔ مختلف قسم کی سوجنوں‘ آنکھوں اور کانوں کی تکالیف‘ گنٹھیا‘ معدے کی بیماریوں‘ گردوں اور جگر کے عوارض‘ خناق اعصابی دردوں‘ جنسی بیماریوں‘ سردرد اور دانت درد کا بھی آرام آجاتا ہے۔ جسم پر مٹی کی پٹیاں باندھنے کے بعد ان کو فلالین اور اونی کپڑے سے ڈھانپ دیا جانا چاہیے۔ انہیں دس سے تیس منٹ تک لگائے رکھنا چاہیے۔ چونکہ زیادہ تکالیف پیٹ کے اندر ہوتی ہیں اس لیے اس پر مڈپیک رکھنے سے بہت سی بیماریوں بشمول بدہضمی کے مختلف اقسام‘ معدے اور آنتوں سے متعلقہ شکایات دور ہوجاتی ہیں۔ بچے کی پیدائش کے دوران ہونے والی تکلیف کو کم کرنے کیلئے ہر گھنٹہ یا دو گھنٹے کے بعد مٹی کے پیک استعمال کیے جانے چاہئیں۔ جسم کے جس حصے پر مڈپیک لگانا ہو‘اسے پہلے پانچ یا دس منٹ تک ٹکور کے ذریعے اچھی طرح گرم کیا جاتا ہے۔ پھر براہ راست کیچڑ لیپ دیا جاتا ہے۔ اس کا دورانیہ پانچ سے دس منٹ تک‘ مطلوبہ ردعمل کے حساب سے ہوتا ہے۔ پرانے دردوں‘ آنتوں میں اینٹھن اور کمر درد کو بھی کیچڑ کے ٹھنڈے اور گرم لیپ سے آرام آجاتا ہے۔ باری باری ٹھنڈے اور گرم لیپ کرنے سے پیٹ کے اپھارے اور آنتوں کی رکاوٹ دور ہوجاتی ہے۔
کیچڑ کا غسل
کیچڑ کا غسل بھی ایک طرز علاج ہے لیکن اس کا طریقہ کیثر کی پٹی (مڈپیک) ہی کی طرح ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اسے بڑے پیمانے پر یعنی پورے جسم پر لگایا جاتا ہے۔ استعمال سے پہلے کیچڑ یا مٹی میں سے سخت کثیف چیزیں نکال کر اس میں گرم پانی ملا کر پیسٹ بنالی جاتی ہے۔ اس پیسٹ یا صاف کیچڑ کو ایک چادر پر پھیلا کر جسم کے گرد باندھ دیا جاتا ہے۔ بعدازاں اس پر ایک یا دو کمبل لپیٹ دیئے جاتے ہیں۔ اس کا انحصار کمرے اور پیک کے درجہ حرارت پر ہوتا ہے۔ مڈ باتھ کے بعد اسے پہلے گرم پانی سے صاف کردیا جاتا ہے۔ پھر کچھ دیر بعد مریض کو ٹھنڈے پانی سے غسل دے دیا جاتا ہے۔ مڈباتھ سے جلد کی سطح ملائم ہوجاتی ہے‘ خون کی گردن تیز تر اور جلد کی بافتوں میں قوت محسوس ہونے لگتی ہے۔ مڈباتھ بار بار کرنے سے جلد کی رنگت نکھر آتی ہے‘ داغ دھبے اور چیچک کے داغ وغیرہ کم یا ختم ہوجاتے ہیں۔ کھجلی‘ برص کے داغ حتیٰ کہ جذام جیسی جلدی امراض میں بھی کمی آجاتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں