مقصد کو مدنظر رکھیں
میں نے ہمیشہ لڑکوں میں ہی تعلیم حاصل کی یعنی سکول سے لے کر کالج تک صرف لڑکوں کے سکول اور کالج سے پڑھا۔ اب یونیورسٹی میں داخلہ لیا ہے۔ یہاں لڑکیاں لڑکوں سے زیادہ ہیں۔ مجھے تعلیم حاصل کرنے میں خاصی دشواری ہورہی ہے۔ ہروقت یوں لگتا ہے جیسے لوگ میرا مذاق بنارہے ہیں۔ میں زیادہ وقت اکیلا ہی رہتا ہوں۔ گزشتہ دو ماہ سے زندگی میں بہت خوشگوار تبدیلی آئی ہے‘ وہ اس طرح کہ میری ہی طرح ایک لڑکی بھی تنہا رہا کرتی تھی۔ اب وہ میرے ساتھ ہوتی ہے‘ محبت کے اظہار میں بھی اس نے پہل کی۔ اب میں ہر روز یونیورسٹی جانے میں ایک انجانی سی خوشی محسوس کرتا ہوں مگر اس کے ساتھ دل میں ڈر بھی ہے کہ کہیں وہ میرا ساتھ نہ چھوڑ دے اور ہماری محبت حقیقت ہوتے ہوتے فسانہ ہی نہ ہوجائے۔ (حماد خالد‘ کراچی)۔
مشورہ: ذرا خود سے پوچھیں کہ یونیورسٹی میں کس مقصد کیلئے داخلہ لیا تھا۔ کیا آپ کا مقصد صرف یہی تھا جس پر بات کررہے ہیں یا اعلیٰ تعلیم کا حصول تھا۔ اگر تعلیم حاصل کرنا مقصد تھا تو پھر یہی اہم مقصد مدنظر رکھنا ضروری ہے۔ محبتوں کی حقیقتوں یا افسانے کی بات قبل ازوقت ہے جس طرح لڑکوں کے سکول میں پڑھا اسی طرح لڑکیوں اور لڑکوں کی موجودگی کو بھی عام سی بات سمجھیں۔
روح کی تکلیف
چند سال پہلے کی بات ہے میری خالہ کا بیٹا لندن سے آیا‘ وہ ہم سب سے مختلف تھا‘ اس کا کھانا پینا‘ چلنا پھرنا اور باتیں کرنا‘ ہمیں بہت عجیب لگا۔ ایک اور بات یہ تھی کہ وہ ہر وقت سگریٹ پیتا رہتا اور پورے گھر میں دھواں بھرجاتا۔ چائے اتنے بڑے گلاس میں پیتا جس میں ہم لسی یا شربت پیتے تھے۔ بہرحال گھر والے تو اس سے چند دن میں ہی اکتا گئے۔ ایک میں تھی۔۔۔ جو اس کا ہر طرح سے خیال رکھتی۔ سگریٹ ختم ہوجاتے تو منگوا کر دیتی اور وہ بھی اپنے جیب خرچ سے۔ والدہ کو تو اتنا بُرا نہ لگتا مگر والد اپنی ناراضگی کا اظہار کردیتے۔ وہ کوئی دو ماہ رہا جبکہ بہت کم وقت کیلئے آیا تھا۔ اس دوران خالہ نے میرا رشتہ بھی مانگ لیا‘ امی نےپہلے تو صاف انکار کردیا پھر میری دلچسپی کو دیکھتے ہوئے پھر امی نے ہاں کردی مگر اس وقت تک بہت دیر ہوچکی تھی نہ منگنی ہوسکی اور نہ کوئی تقریب ہوئی اور وہ چلا گیا۔ میرے ایک کزن لندن سے آئے تھے انہوں نے کہا کہ وہ لڑکا تو میرا نام تک نہیں لیتا‘ یہ سن کر غم اور بھی تازہ ہوگیا۔ (ن،ا۔ کوٹلی آزادکشمیر)۔
مشورہ: انسان کی شخصیت کا اندازہ اس کے کردار اور عمل سے لگایا جاسکتا ہے اور یہ کوئی ایسی مستقل بات بھی نہیں۔ رشتہ دار تو آتے جاتے رہتے ہیں ان کے آنے جانے کو روح کا غم بنالینا کہاں کی عقلمندی ہے؟ آپ خود کو اس قدر کمزور کیوں بنارہی ہیں کہ اپنی خوشی اور اپنے غم کو کسی دوسرے کے ساتھ اس طرح محسوس کیا جائے کہ کچھ بھی اپنا نہیں ہے۔ اگر وہ آپ کا ذکر نہیں کرتا تو اس میں بُرا ماننے یا غم کرنے کی کوئی بات نہیں۔ جو کچھ بھی ہوا بھول جائیں۔ اچھی زندگی گزارنے کیلئے اچھے ساتھ کی ضرورت ہوتی ہے۔
سانپ پکڑنے کا شوق
مجھے مختلف کیڑوں مکوڑوں سے بہت ڈر لگتا ہے۔ سانپ بچھو تو ہیں ہی خوف زدہ کرنے والے مجھے تو چھپکلی‘ لال بیگ اور چیونٹیوں سے بھی ڈر لگتا ہے۔ چھوٹے بھائی ان چیزوں سے اور زیادہ ڈراتے ہیں‘ مجھے یاد ہیں وہ واقعات جب میں چھوٹی تھی تو امی اور خالہ بھی ان چیزوں سے ڈرتی تھیں‘ سانپ کا بہت ذکر ہوتا تھا میں دیکھتی ہوں کہ سانپ والے تو اسے ہاتھوں میں اٹھائے پھرتے ہیں۔ میرا بھی دل چاہتا ہے کہ ان کا خوف ذہن سے نکال دوں اور کبھی انہیں ہاتھوں میں اٹھاؤں مگر پھر خوف حاوی آجاتا ہے لیکن پھر بھی خطرات سے کھیلنے کا شوق ہے۔ (ثناء‘ لاہور)۔
مشورہ: بچوں کےذہنی رجحانات اور رویے پر ان کے والدین کے رویوں کا بہت گہرا اثر ہوتا ہے وہ بچپن میں اپنی والدہ یا والد کو جن چیزوں اور جن صورتحال میں خوفزدہ ہوتے دیکھتے ہیں خود بھی ان سب سے خوف محسوس کرتے رہتے ہیں۔ شہر کے لوگ کیڑے مکوڑوں سےزیادہ ڈرتے ہیں لیکن ویرانوں اور جنگلوں میں سے گزرنے والوں کو اتنا ڈر نہیں ہوتا۔ جو کچھ انسان کے تجربے میں نہ ہو اور اچانک سامنے آجائے تو اس سے خوفزدہ ہونا فطری سی بات ہے۔ چھپکلی‘ لال بیگ اور کیڑے مکوڑوں کا خوف عموماً خواتین میں زیادہ پایا جاتا ہے اور اکثریت اس خوف کو نارمل سمجھتے ہوئے اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کی کوشش بھی نہیں کرتیں سانپ بچھو اور ایسے دیگر خطرناک کیڑوں اور جانوروں سے تو سب ہی خوفزدہ ہوسکتے ہیں۔ جو لوگ سانپوں کو اٹھاتے ہیں وہ ان کو پکڑنے کے فن سے آشنا ہوتے ہیں۔ انہیں معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کس جگہ زہر ہے اور اسے کیسے نکالا جاسکتا ہے۔ آپ بھی بغیر معلومات کے سانپوں کو پکڑنے یا ان کے قریب جانے کا ارادہ ترک کردیں۔
بلند مقاصد کی تکمیل
میں کیڈٹ کالج میں پڑھتا ہوں‘ بہت شریر تھا لیکن ذہانت تھی۔ گھر والے میری شرارتوں سے پریشان تھے۔ انہوں نے میری مرضی کیخلاف ایک مشکل جگہ داخلہ کروادیا۔ جب پاپا آتے ہیں میں ان سے کہتا ہوں کہ میں یہاں سے جانا چاہتا ہوں وہ کہتے ہیں آفیسر کی زندگی گزارو گے‘ یہاں تربیت اور تعلیم دونوں ہیں۔ میں ان کی باتیں سن کر خاموش ہوجاتا ہوں مگر انہیں نہیں بتاسکتا کہ یہ راستہ بڑا کٹھن ہے صرف چھٹی میں گھر آسکتا ہوں۔ (عرفان احمد‘ لاہور)۔
مشورہ: یہ تو اچھی بات ہے کہ آپ کے والد نے تعلیم کے حصول کیلئے ایک اچھے ادارے میں داخل کروا دیا‘ گھبرائیں نہیں! کٹھن راستوں پر چل کر بلند مقاصد کی تکمیل ہوتی ہے۔ زندگی سنوارنے کیلئے خواہشات کی قربانی تو دینی ہوتی ہے جو کچھ اچھا لگتا ہے اسے آنے والے وقت کیلئے اٹھارکھیں جب کسی قابل ہوجائیں گے تو بہت موقع ملے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں