حضرت مولانا دامت برکاتہم العالیہ عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ان کی نامور شہرہ آفاق کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
وہ ہمیشہ لوگوں کو خیرخواہی کی نصیحت کرتے تھے‘ ان کے ذہن میں نبی اکرم ﷺ کا فرمان (دین صرف خیرخواہی ہے) رہتا تھا‘ اس لیے وہ اپنے وعظ میں لوگوں کو بدخواہی سے حد درجہ احتراز اور ہمیشہ خیرخواہی کرنے کی بات کرتے تھے‘ وہ اپنا وعظ شروع کرتے تو ہمیشہ یہ الفاظ کہتے کہ لوگو! تم اپنی طرف سے ہمیشہ لوگوں کے ساتھ خیرخواہی کا معاملہ کرتے رہو‘ اگر تمہارے ساتھ کوئی برائی یا بدخواہی کرے گا تو اس کا مخالفت یا بدخواہی کرنا تمہاری طرف سے اس کیلئے خود کافی ہوگا۔ ایک بار خلیفہ وقت نے ان کا وعظ سنا‘ مثبت فکر اور لوگوں کو خیرخواہی کی مخلصانہ ترغیب سے وہ بہت متاثر ہوا اور اس نے اپنا خاص مشیر بنا کر ان کی نشست گاہ دربار میں اپنے برابر میں لگوا دی‘ درباری علماء کو شیخ احمد طولون کا یہ اعزاز نہ بھایا اور ان میں حسد پیدا ہوا‘ ان میں سے ایک درباری مصاحب عالم صاحب کو اس اعزاز کی حد درجہ تکلیف تھی‘ وہ روز بادشاہ کی نگاہ سے شیخ احمد طولون کو گرانے کی سوچتے رہے‘ ایک روز انہوں نے بادشاہ سے کہا کہ یہ شیخ احمد طولون جن کو آپ نے دربار میں مشیر بنایا ہے آپ کو متعفن دہن کہتے ہیں‘ اس لیے آپ سے بڑی کراہت کرتے ہیں‘ بادشاہ نے معلوم کیا کہ یہ آپ کیسے کہتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ کل جب یہ دربار آئیں تو ان کو اپنے پاس بلانا‘ منہ پر کراہیت کی وجہ سے ہاتھ رکھ کر آئیں گے ادھر بادشاہ کو تو یہ سمجھایا اور ادھر احمد طولون سے بات کی کہ حضرت والا! اگر آپ کل صبح دربار جانے سے پہلے ناشتہ ہمارے یہاں کرلیں تو بہت خوشی ہوگی‘ ایک مومن وہ بھی عالم کی دعوت سمجھ کر انہوں نے قبول کرلیا‘ شیخ احمد طولون ناشتہ پر پہنچے تو وہاں روٹی کے ساتھ لہسن اور پیاز کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ انہیں اس عالم کے افلاس پر ترس آیا اور اس خیال سے خوب کھایا کہ ان کو احساس نہ ہو کہ غربت کی وجہ سے کچھ نظم نہیں کرسکا۔
ناشتہ سے فارغ ہوکر وہ دربار پہنچے اور حسب معمول اپنا وعظ کہا بادشاہ نے امتحان کے لیے ان کو اپنے پاس بلایا‘ منہ میں لہسن اور پیاز کی بو کی وجہ سے وہ منہ پر ہاتھ رکھ کر بادشاہ کے پاس آئے‘ بادشاہ جلال میں آگیا اور اس کو یقین ہوگیا کہ احمد طولون مجھے متعفن دہن سمجھ کر مجھ سے کراہیت کرتے ہیں اس نے ایک فرمان نامہ اپنے گورنر کے نام جاری کیا جس میں لکھا کہ حامل فرمان عالم کو قتل کرکے ان کی کھال میں بھس بھردو اور یہ فرمان لفافہ میں بند کرکے شیخ احمد طولون کو دیا اور کہا کہ اس کو لیکر فلاں گورنر کے پاس جانا۔
خلیفہ کا معمول تھا کہ جب وہ کسی کو فرمان لیکر اس گورنر کے پاس بھیجتا تو کچھ اعزازو اکرام یا بڑے انعام دینے کیلئے بھیجتا وہ فرمان ہاتھ میں لیکر دربار سے نکلے‘ وہ مصاحب عالم دربار سے باہر نکلے تو انکے ہاتھ میں فرمان شاہی دیکھ کر ان کو حیرت ہوئی اور حسد بھی بڑھا‘ انہوں نے شیخ احمد طولون سے کہا کہ حضور اگر آپ مجھ پر احسان فرمائیں تو یہ فرمان شاہی میں گورنر کے پاس لے جاؤں‘ شیخ احمد طولون نے یہ خیال کیا کہ اس فرمان شاہی میں کوئی دادو دہش کا حکم ہوگا اور یہ عالم صاحب بڑے افلاس میں زندگی گزار رہے ہیں میرے پاس تو اللہ کا شکر ہے فراوانی ہے۔ وہ فرمان شاہی ان کو دیدیا‘ خوش خوش وہ فرمان شاہی لیکر گورنر کے پاس پہنچے‘ گورنر نے فرمان کو کھولا تو بتایا کہ اس میں یہ لکھا ہے کہ حامل فرمان کو قتل کردو‘ عالم صاحب کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی انہوں نے لاکھ خوشامد کی کہ یہ خط اصلاً شیخ احمد طولون کو بادشاہ نے دیا تھا‘ انہوں نے اس خیال سے کہ اس میں کچھ انعام دینے کو لکھا ہوگا مجھے دیدیا۔ مگر گورنر نے اس کی بات ماننے سے انکار کردیا اور کہا کہ میں خلیفہ کی حکم عدولی نہیں کرسکتا اس لیےحامل فرمان کو قتل کروا کر بھس بھروادیا۔
اگلے روز صبح شیخ احمد طولون حسب معمول دربار میں پہنچے بادشاہ نے ان کو دربار میں دیکھ کر تعجب سے پوچھا آپ نے اس فرمان کا کیا کیا؟ شیخ احمد نےواقعہ بتایا تو بادشاہ نے کہا کہ اس فرمان میں آپ کو قتل کرکے کھال میں بھس بھرنے کا حکم تھا‘ شیخ نے افسوس اور حیرت سے پوچھا آپ نے یہ حکم میری کس خطا پر جاری کیا؟ بادشاہ نے کہا: آپ مجھے متعفن دہن کہتے ہیں‘ شیخ نے کہا العیاذ باللہ آپ نے کیسے سمجھا؟ بادشاہ نے کہا میں نے آپ کو دربار میں بلایا تھا تو آپ کراہت کی وجہ سے منہ پر ہاتھ رکھ کر آئے تھے‘ شیخ نے کہا کہ اس روز میں نے ان عالم کے یہاں لہسن اور پیاز کی چٹنی کے علاوہ کچھ نہیں کھایا تھا۔ میرے منہ میں بدبو آرہی تھی آپ کو تکلیف نہ ہو اس لیے میں نے اپنے ناک منہ پر ہاتھ رکھا تھا۔ بادشاہ کو ان عالم صاحب کی اور شیخ احمد کی دشمنی کا حال اور مخالفت کی خود سزا ملنے کا قدرتی فیصلہ سمجھ میں آیا تو بادشاہ وجد میں آگیا
اور ان سے کہا کہ شیخ ایک دفعہ اپنی نصیحت پھر دہرائیے؟ شیخ نے وعظ شروع کیا حسب معمول یہ الفاظ دہرائے۔ لوگو! تم ہمیشہ اپنی طرف سے لوگوں کے ساتھ خیرخواہی کرتے رہو‘ اگر کوئی تمہارے ساتھ بدخواہی کریگا تو اس کی مخالفت کرنا اس کیلئے تمہاری طرف سے خود کافی ہوگا‘ وعظ سن کر خلیفہ نے سارے درباریوں کے سامنے پورا واقعہ سنایا اور کہا کہ شیخ احمد طولون کیسی سچ بات کہتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں