یاد رہے کہ اس وقت میری عمر 40 سال تھی۔ لوگوں کے جوش و خروش نے مجھے بھی ورزش پر اُکسایا اور میں نے جاگنگ شروع کردی۔ مجھے یقین تھا کہ اس سے میرا موٹاپا رخصت ہوجائے گا حالانکہ ڈائٹنگ کی کتابوں میں اسے فضول قرار دیا گیا تھا
موٹاپا بہت سے لوگوں کی طرح میرے لیے بھی مصیبت بنا ہوا تھا۔ سب کی طرح میں نے بھی اس سے نجات پانے کیلئے پرہیزی کھانے بلکہ نیم فاقہ کشی کی مشہور و معروف راہ اختیار کی۔ عرف عام میں ڈائٹنگ کہلانے والے اس طریقے کے بارے میں آپ کو بے شمار کتابیں بازاروں میں مل جائیں گی۔ اس فاقہ کشی کے دوران مجھے یہ علم ہی نہ ہوسکا کہ میرے موٹاپے کی اصل وجہ کیا ہے‘ میرا کھانے کی طرف لپکنا یاپھر والدین سے ورثے میں ملا ہوا موٹاپا؟ کم ازکم میں نے جو کتابیں پڑھیں ان میں اس کا کوئی جواب موجود نہیں تھا۔ ہاں البتہ یہ تمام کتابیں ایک بات پر متفق تھیں کہ موٹاپے سے نجات کے سلسلے میں ورزش سے کوئی مدد نہیں لی جاسکتی۔
میں نے ان کتابوں کی ہدایات پرایک دو نہیں پورے دس سال تک عمل کیا اور نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات رہا… یعنی اپنے وزن سے زیادہ وزن کم کرنے کے باوجود میں موٹا ہی رہا۔ یہ حالات دیکھ کر میں نے ڈائٹنگ کو خدا حافظ کہا کیونکہ جب اس اذیت کا کچھ حاصل ہی نہیں تھا تو پھر اس کا جاری رکھنا کون سا کارثواب تھا۔
چار میل کی دوڑ اور اس کا نتیجہ:پھر ہوا یہ کہ میں ایک لندن کے مشہور ہائیڈ پارک جانکلا۔ خزاں کا موسم تھا اور اس دن لندن ٹائمز کی جانب سے ایک لمبی تفریحی دوڑ کا انتظام کیا گیا تھا جس میں بہت سے لوگ شرکت کررہے تھے۔ ان میں بہت سے مجھ سے دوگنی عمر کے لوگ بھی شامل تھے۔ یاد رہے کہ اس وقت میری عمر 40 سال تھی۔ لوگوں کے جوش و خروش نے مجھے بھی ورزش پر اُکسایا اور میں نے جاگنگ شروع کردی۔ مجھے یقین تھا کہ اس سے میرا موٹاپا رخصت ہوجائے گا حالانکہ ڈائٹنگ کی کتابوں میں اسے فضول قرار دیا گیا تھا۔ میںمستقل مزاجی سے جاگنگ کرتا رہا۔ اگلی گرمیوں کے موسم تک میں ساڑھے چار میل کی دوڑ لگانے لگا تھا اور میرا وزن دس پاؤنڈ کم ہوگیا تھا اب کیفیت یہ ہے کہ میرا وزن اسی سطح پر برقرار ہے اور مجھے ڈائٹنگ کی اذیت سے نجات مل گئی ہے اب میں سب کچھ کھاتا ہوں لیکن وزن نہیں بڑھتا۔
بہترین اور صحت بخش تجربہ:اپنے اس تجربے کی بنیاد پر میں یہ کہنے میں حق بجانب ہوں کہ ڈائٹنگ کی کتابوں میں ورزش کو بے کارقرار دینے والے غلط ہیں۔ ورزش موٹاپے کو دور کرنے کا ایک بہترین اور صحت بخش تجربہ ہے۔ میرے تجربے نے اس کی توثیق کردی ہے۔
ڈائٹنگ کے برخلاف جس میں انسان تھکتا اور کمزور ہوتا چلا جاتا ہے ورزش سے اس کی صحت و توانائی میں اضافہ ہوتا رہتا ہے۔ بشرطیکہ صحیح قسم کی ورزش کی جائے بعض ورزشیں جیسے دوڑنے سے توانائی و صحت میں اضافے اور وزن میں کمی کی رفتار تیز ہوجاتی ہے جسم کا میٹابولک نظام تیزی سے کام کرنے لگتا ہے جب کہ فاقہ کشی میں یہ نظام سست پڑجاتا ہے۔ ورزش کی ایک اور خصوصیت یہ ہے کہ اس سے نہ صرف یہ کہ دوران ورزش تحول کی رفتار تیز رہتی ہے بلکہ ورزش کے بعد بھی یہ رفتار برقرار رہتی ہے۔لہٰذا اگر آپ دس منٹ جاگنگ کرتے ہیں تو اس سے آرام کی حالت کے مقابلے میں آپ کے جسم میں 90سے 120 تک زیادہ حرارے جلیں گے۔ ورزش کے بعد تحول کی رفتار کا انحصار ورزش کے علاوہ انفرادی ہوتا ہے بعض میں زیادہ اور بعض میں کچھ کم۔بہت سے قارئین کیلئے یہ بات یقیناً نئی ہوگی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ورزش اور تحول کے بارے میں جو تحقیق ہوئی ہے وہ بالکل جدید ہے۔ 1970ء تک یورپ کے ملکوں میں بہت کم لوگ زندگی بھر سرگرم اور فعال زندگی گزارتے تھے۔ عمر میں اضافے کے ساتھ ان کی سرگرمیاں گھٹتی چلی جاتی تھیں۔
اس تحقیق کا موضوع وہی لوگ بنے جو عمر میں اضافے کے باوجود سرگرم زندگی گزارنے کے خواہاں تھے۔ گویا اسی قسم کے لوگوں نے سائنس دانوں کیلئے تحقیق و مطالعے کا موقع فراہم کردیا اور وہ نظام تحول پر ورزش کے اثرات کا مطالعہ کرنے کے قابل ہوئے۔موٹاپے کے بارے میں برطانوی رائل کالج آف فزیشنز کی 1983ء کی رپورٹ کے مطابق یہ بات یقینی ہے کہ ہفتے میں تین دن بیس منٹ کی معتدل ورزش قلب و شرائن کو اس قابل رکھتی ہے کہ انسان آرام کے ساتھ جسمانی سرگرمیوں کو جاری رکھ سکے۔ اس سرگرمی کے نتیجے میں صحت مند اور توانا ہونے کا احساس بھی حاصل ہوتا ہے۔ گویا ایک خاص وقت یا مدت کے لیے کی جانے والی کسی ورزش سے آپ خود کو صحت مندمحسوس کرتے ہیں یہ احساس عطا کرنے والی ورزش ایروبک یا ہوازی ورزش کی تعریف میں آتی ہے۔
جاگنگ بہترین ورزش:میری دانست میں جاگنگ بہترین ہوازی ورزش ہے۔ بشرطیکہ دس منٹ تک متواتر کی جائے۔ اس کے علاوہ یہ انتہائی سستی ورزش بھی ہے جو ہر شخص سال بھر کرسکتا ہے۔ ابتدا میں کچھ فاصلہ دوڑ کر اور کچھ چل کر طے کرنا چاہیے۔ اسی طرح پیراکی بھی بہترین ورزش ہے۔
آپ جانتے ہیں کہ ہمارے جسم میں غذا کو جلانے کیلئے آکسیجن کے ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے جسم کو جس قدر زیادہ آکسیجن ملے گی‘ جسم میں غذا کو جلانے والا شعلہ اسی قدر زیادہ تیز جلے گا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ دھونکنی کے تیز چلنے سے آگ بھی تیز بھڑکتی ہے‘ اسی طرح پھیپھڑوں کی دھونکنی کے تیز چلنے سے بھی غذا کے جلنے کا عمل تیز ہوکر وہ توانائی میں تبدیل ہوتی چلی جائے گی۔ جسم میں آکسیجن کے جذب و صرب میں جُوں جُوں اضافہ ہوگا جسم کا تحولی نظام بھی اسی رفتار سے تیز ہوتا چلا جائے گا آکسیجن میں اضافے کے ساتھ جسم بھی زیادہ مقدار میں غذا کو جلائے گا گویا اسی طرح آکسیجن کے انجذاب اور غذا کے جلنے میں ایک توازن قائم ہوجائے گا ایندھن جتنا زیادہ ہوگا آگ بھی اتنی ہی بھڑکے گی۔میں عرض کرچکا ہوں کہ ڈائٹنگ یا فاقہ کرنے والے شخص کے جسم میں تحول کی رفتار بھی سست ہوجاتی ہے۔ خوراک میں کمی کے ساتھ ہی جسم آکسیجن کے انجذاب کی رفتار بھی کم کردیتا ہے اور یہ صرف ہوازی ورزشوں سے ہی ممکن ہے۔ اب یہ بات یقینا واضح ہوگئی ہوگی کہ صرف ہوازی ورزشیں یا سخت برداشت والے کام ہی سُرخ عضلات اور چربی کو استعمال کرتے ہیں یہی وہ کام ہیں جو کھیتوں‘ جنگلات اور کارخانوںمیں کام کرنے والے کسان اور مزدور کرتے ہیں۔ چرواہے‘ پہاڑوں پر سامان پہنچانے والے‘ وزن ڈھونے والے‘ پھاوڑا چلانے والے۔ اسی لیے ان کی صحتیں قابل رشک ہوتی ہیں‘ ان کے بدن صحت و توانائی کے نمونے نظر آتے ہیں جب کہ شہروں کے لوگ اور بالخصوص آرام و آسائش کے پروردہ‘ موٹاپے کے شاکی ملتے ہیں۔ ہمارے دیہاتی باشندے چوںکہ پابندی سے محنت کرتے ہیں اس لیے بڑھاپے میں بھی ان کی صحت و توانائی باعث صدر شک جوانی ہوتی ہے۔ موٹے فربہ لوگوں کو ہمارا مشورہ یہی ہے کہ اپنے سرخ عضلات کو سفید عضلات میں تبدیل نہ ہونے دیجئے۔ ورزش کو پابندی کے ساتھ اپنی زندگی کا جزو بنائیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں