مُداوا ،قبل پچھتاوا:میرے محترم دوستو!یہ بات تو طے ہے کہ ہم نے مرنا ہے ، کسی کا پچھتا و اپوری زندگی کا ہوتا ہے ،کسی کا پچھتاوا سال کا ہوتا ہے، کسی کا پچھتاوا دن کا ہوتا ہے ،گھر سے روٹی کھا کے نہ گیا‘کسی نے آگے روٹی نہیں پوچھی، سارے دن کا پچھتاوا، لوگوں نے گندم، چاول کی بوائی کی ،میں نے نہ کی، اب وہ کٹائی کررہے ،ان کے گھر گندم ،چاول آرہے۔ میں نے محنت نہ کی، میں نے نہ لگائے،سارے سال کا پچھتاوا ہے۔ ایسے ہی کسی کو دن کا پچھتاوا، کسی کو سال کا پچھتاوا اور کسی کو ہمیشہ ہمیشہ کا پچھتاوا کہ غفلت میں زندگی ضائع کردی۔۔۔۔!
اطاعت والابڑھاپابھی نعمت ہے:ایک اﷲ والے فرماتے ہیں: ـــ’’بڑھاپے میں بھی قبر کی یاد آجانا اور موت کی یاد آجانا اور اﷲ جل شانہٗ کی طرف رجوع ہوجانا‘یہ بھی کسی فقیر کی صحبت کے بغیر نہ ہوگا‘ ورنہ بڑھاپے میںدل اور سخت ہوجاتا ہے ‘‘یہ جو رب کی یاد آگئی ہے ناں! اگر بڑھاپے میں یا جوانی میں یا ڈھلتے میں یا چڑھتے میں محض اللہ کی توفیق سے اور کسی فقیر کی صحبت کے بغیر نہیں آئے گی۔
حلال کی قیمت ہے: اس لئے اﷲ والو! مرنا تو ہے، موت تو حقیقت ہے پھر اس موت کی حقیقت کے لئے جیسے میں نے عرض کیا کہ جانور کو ذبح کرتے ہیں ،اگر تکبیر کے ساتھ ذبح کریں تو حلال ہوجائے گا اور تکبیر کے بغیر ذبح کریں گے‘ وہ حلال جانور بھی ہوگا تو بھی حرام ہوجائے گا تو مسلمان حلال ہے یعنی اسلام میں ہے‘ عافیت میں ہے اگر کلمہ کے ساتھ، ایمان کے ساتھ اس کی زندگی گزر گئی اور موت آگئی تو اس کی زندگی اور موت ایسے ہے جیسے حلال موت کہ حلال کی ایک ایک چیز کی قیمت ہوتی ہے اس کی کھال کی قیمت، اس کے گوشت کی قیمت ہے۔ حرام کی قیمت نہیں ہے۔
ایک فکر انگیز قیمتی موتی:اللہ والوں کاایک اور موتی عرض کررہا ہوں:’’ کچہریوں میں ہم نے حاضری دینی ہو تو بلانے والے کے بلاوے سے قبل پہنچ جاتے ہیں، اب ہم سارے خود موازنہ کریں کہ کیا ا ﷲ جل شانہٗ کے گھر یا اﷲ والوں کے پاس جانے کا کوئی بلاوا ہو تو ہم کیسے پہنچتے ہیں؟‘‘
ایک اور عجیب بات بتائوں، فرمایا کہ اگر ہم کو کچہریوں کے بلاوے، اسٹیشن کے بلاوے، ایئر پورٹ ،جہاز ، بس، دکان، دفتر، زمیندارہ ، صنعت اور تجارت کے بلاوے… یہ جو سارے بلاوے ہیں اس میں ہم پہلے گئے اور اس میں اہتمام سے گئے… کیا ہمیں اللہ اور اس کے دین کے لیے بھی ایسا ہی ذوق ہوتا ہے… !؟؟؟
ضروریات کو مقصد پر قربان کرنا سیکھیں:میں شادمان چوک کے اشارے پہ رکا ہوا تھا۔ میں نے دیکھاکہ ایک صاحب گاڑی میںشیو کرنے لیےاپنی ڈاڑھی کو کریم لگارہے تھے، اسٹیئرنگ ایک ہاتھ سے چھوڑا ہوا تھا‘ گاڑی اشارے پر رکی ہوئی تھی ۔میں حیران ہوا.....! پھر اندر سے ایک آواز آئی۔ اس نے کہیں جانا ہے، صنعت میں ، تجارت میں، دفتر میں..... اسے تاخیر ہورہی ہے اس کے پا س وقت کم ہے‘ تقاضا یہ ہے کہ اپنی ضرورتوں کو جلدی پورا کرے۔ اس کی ضرورت ہے کہ اس نے شیو کرنی ہے۔ یہ اُس کے مطابق اُس کی ضرورت ہے اب اس نے اپنی اس غیر شرعی ضرورت کو پورا کرنا ہے، اب اس نے سوچا اگر گھر میں کرتا ہوں تو وقت لگتاہے۔ جگہ جگہ اشارے ہیں‘اپنی ضرورت پوری کرنے کا موقع مجھے یہ اشارے دیں گے۔ مومن بھی جب ایمان اعمال کی زندگی گزارتا ہے تو ضرورت تو مومن بھی اپنی پوری کرتا ہے لیکن اب اس کی منزل موت اورآخرت ہے۔۔۔ اﷲ جل شانہٗ کے سامنے حاضری ہے، اس نے جانا وہیں ہے، لیکن ضروریات کو سلوٹوں میں پورا کرتے کرتے آخر وہیں پر پہنچ جانا ہے۔ جو سلوٹوں میں ضروریات پوری کرتے ہیں‘ وہ وقت پر پہنچ جاتے ہیں اگر وہ شخص اہتمام سے باتھ روم میں شیوکرتا تواسے تاخیر ہوجاتی۔ تواسی طرح اپنے من کواور دل کو سمجھائیں اور اپنے من سے عرض کریں دیکھ! تو ایسا کر آج کے بعد اگر اﷲ پاک کی ذات عالی سے تجھے تعلق رکھنا ہے تو پھر اﷲ والی مجالس کے لیے اپنے آپ کو ہر پل ہر لحظہ تیار رکھنا ہوگا۔
نفس کِن مجالس سے بھاگتاہے:مجھے ایک صاحب کہنے لگے: ’’درس میں آنے کو دل نہیں چاہتا۔‘‘ میں نے کہا: اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ایسی مجالس سے موانست نہیں، اُنسیت نہیں ہے، بچپن سے لیکر پچپن تک ایسی مجالس ملی نہیں اور اگر ملی ہیں تو اس کے اندر کوئی پیغام نہیں … ہماری بہت سی مجالس یا اجتماعات ہوتے ہیں لیکن ان میں کوئی پیغام نہیں ہوتا کہ اب کرنا کیا ہے؟ کوئی محفل ہوئی ہے اس محفل کے اندر سب کچھ ہوتا ہے لیکن پیغام نہیں ہے کہ اب کیا کرنا ہے؟ ہمارا مقصد کیا ہے؟ ہمیں اﷲ جل شانہٗ نے کس مقصد کے لئے بھیجا ہے۔ میری درخواست سمجھ رہے ہیںنا…؟؟؟ اب چونکہ یہدرس روحانیت و امن کی مجلس ٹوٹی پھوٹی ہورہی ہیں… اس میں کوئی نہ کوئی پیغام ہوتا ہے… اب اس پیغام سے اندر کا نفس گھبراتا ہے۔ وہ کہتا ہے کچھ نا کچھ توکرنا پڑے گا… جب کچھ کرنا پڑے گا تو کچھ چھوڑنا بھی پڑے گا… کیوں اﷲ والو!اس نے کہاکچھ کرنا پڑے گا۔
مرنے سے پہلے مرجائیں : ایک بندہ کہنے لگا :آپ کے ہاں تو پچیس دفعہ روز مرنا پڑتا ہے ۔میں نے کہا:وہ کیسے؟ کہا کہ آپ کہتے ہیں نظریں اِدھر نہ جائیں، پائوں اُدھر نہ جائیں، کان اُدھر نہ جائے زبان اِدھر نہ جائے ،یہ بھٹکے نہ، یہ کھٹکے نہ، یہ چیز ادھر نہ ہو، یوں نہ ہو اور یہ مرنا نہیں ہے تواور کیا ہے؟
دو میں سے ایک چیز ہے: یا من کی چاہت پوری کریں یار ب کی چاہت پوری کریں،یہ مرنا ہی تو ہے۔ اسی لیے کہتے ہیںناں کہ جو مرنے سے پہلے مرجاتے ہیں اﷲ کے ہاں و ہی سب سے اولیٰ ہوتے ہیں… سب سے افضل ہوتے ہیں… سب سے اکمل ہوتے ہیں… سب سے کامل ہوتے ہیں… اور میرا رب ان کے استقبال کے لئے سب کچھ لے کے تیار بیٹھا ہوا ہے ۔(جاری ہے)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں