میرے دوست کے گھر کے پاس ایک بہت اونچا درخت تھا۔ اس کی ایک نہایت اونچی شاخ کے سرے پر ایک گلہری نے اپنا گھونسلا بنارکھا تھا‘ لیکن اسے کچھ خبر نہ تھی۔ ایک روز جب وہ کھڑکی سے جھانک کر باہر دیکھ رہا تھا کہ اسے درخت کی چوٹی پر کوئی چیز متحرک نظر آئی‘ غور سے دیکھا‘ تو پتہ چلا گلہری ہے۔ وہ اسے دیکھتا رہا۔ گلہری آہستہ آہستہ اور بڑی احتیاط سے نیچے اتر رہی تھی۔ خاصی نیچے اتر آئی‘ تو احتیاط کا سبب معلوم ہوا۔ اس نے اپنے منہ میں ایک بچہ دبا رکھا تھا۔ زمین پر پہنچنے کے بعد وہ تیزی سے سبزے پر دوڑتی ہوئی جھاڑیوں میں چھپ گئی۔
چند منٹ کے بعد وہ پھر جھاڑی سے نکلی‘ دوڑتی ہوئی اسی درخت پر چڑھی‘ اپنے گھونسلے میں پہنچی اور پھر ذرا دیر بعد ایک اور بچے کو منہ میں دبائے اسی احتیاط سے نیچے اترنے لگی۔ وہ ان دو بچوں سے پہلے اور کتنے بچوں کو منتقل کرچکی تھی‘ اس بارے میں کچھ نہیںکہا جاسکتا لیکن یہ واقعہ ہے کہ وہ اپنے پورے کنبے کو وہاں سے کسی دوسری جگہ منتقل کررہی تھی۔ وہ ایسا کیوں کررہی تھی؟ یہ ایک دوسرا سوال ہے غور کرنے کے بعد خیال ہوا شاید اس کا پہلا مسکن غیرمحفوظ تھااور اسی وجہ سے اس نے جھاڑی میں دوسرا گھر بنالیا ہے۔ یہ نیا مسکن پہلے سے زیادہ بڑا اور ایک اور نہایت اونچے درخت کی چوٹی پر تھا۔ کئی ایک بچوں کو یکے بعد دیگرے ایک درخت سے دوسرے درخت پر منتقل کرنا بڑا مشکل اور سخت محنت کا کام تھا‘ لیکن ’’مامتا‘‘ بڑے بڑے اور حیرت ناک کام کراسکتی ہے۔
اکثر حیوان اسی طرح اپنے بچوں کو غیرمحفوظ مقامات سے محفوظ جگہوں پر پہنچا دیتے ہیں‘ مثلاً بھیڑیا‘ شیرببر‘ لومڑی وغیرہ… یہ حیوان بلی کی طرح اپنے بچوں کو گردن سے پکڑ کر لے جاتے ہیں۔ عجیب بات یہ ہے کہ جب چھوٹے چھوٹے جانوروں کو ان کی کھال سے پکڑ کر اٹھایا جاتا ہے تو وہ نہ تو اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں اور نہ پنجے مارتے ہیں۔ غالباً یہ بات ان کی فطرت میں داخل ہے کہ اگر انہیں جسم کے اس حصے سے پکڑ کر اٹھایا جائے تو سمجھ جاتے ہیں کہ کچھ نقصان نہ ہوگا۔ اسی طرح بڑے ہوکر بھی وہ اس بات کو نہیں بھولتے‘ چنانچہ اگر کسی جنگلی جانور کو اس کی گردن کے اوپر سے پکڑ کر اٹھایا جائے تو وہ بے حس و حرکت لٹکا رہتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ اسے بچپن کا زمانہ اچھی طرح یاد ہوتا ہے۔
بعض اوقات حیوانات اپنے بچوں کو دشمنوں سے بچانے کیلئے نہایت محفوظ اور آرام دہ گھر بناتے ہیں۔ خرگوش کا گھر اس کی اچھی مثال ہے۔ وہ زمین کے اندر یا تو ایک نئی سرنگ بنالیتا ہے یا پھر پرانی سرنگ ہی کے آخری حصے میں گھاس وغیرہ جمع کرکے اس جگہ کو کسی قدر نرم اور گرم کمرے میں تبدیل کرلیتا ہے۔ بعض اوقات مادہ اپنے جسم کے بال بھی نوچ کر گھاس میں ملا دیتی ہے۔ اسی طرح ایک ایسی نرم وملائم گدی بن جاتی ہے جس میں بے بس اور لوتھڑے سے بچے پیدائش کے بعد پڑے رہتے ہیں۔ اس اہتمام کے بعد بھی ماں ان کی طرف سے پوری طرح مطمئن نہیں ہوتی اور باہر جاتے وقت سرنگ کے دروازے کو اس طرح بند کردیتی ہے کہ دشمن تو دشمن ٹھنڈی ہوا تک اندر داخل نہیں ہوسکتی۔ وہ سرنگ کھودتے وقت جو مٹی باہر نکالتی ہے اسی سے سرنگ کا دہانہ ڈھک دیتی ہے اور جب تک زمین کو پوری طرح ہموار نہ کردے وہاں سے ہٹنے کا نام نہیں لیتی۔بعض جانور ایسے بھی ہیں جن کے بچے پیدائش کے وقت پوری طرح نشوونما پائے ہوئے نہیں ہوتے۔ ان میں کنگرو اور بعض دوسرے تھیلی دار جانور شامل ہیں۔ کنگرو کے بچے پیدائش کے فوراً بعد ماں کے پیٹ کی تھیلی میں واپس چلے جاتے ہیں اور پھر مکمل نشوونما کے بعد باہر نکلتے ہیں۔ اسی طرح بندریا اپنے بچے کو ہر وقت چھاتی سے چمٹائے رکھتی ہے اور جب کوئی اس کے قریب جاتا ہے تو غصے سے لال پیلی ہوکر دانت نکالتی اور چیختی ہے۔ایری آس مچھلی انڈے دینے کے بعد اپنے منہ کی تھیلیوں میں لیے لیے پھرتی ہے اور جب تک بچے بڑے ہوکر آزادانہ زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہوجاتے انہیں منہ سے باہر نہیں نکالتی… ایک مینڈک فیتے نما انڈوں کی تھیلی اپنی کمر کے گرد لپیٹ لیتا ہے اور یہ تھیلی بچے نکلنے تک اس کے جسم سے چمٹی رہتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں