رابعہ ایک مقامی سکول ٹیچر ہیں‘ ان کی چھ بہنیں اور دو بھائی ہیں۔ ان کے بڑے بھائی کی شادی کو چھ ماہ کا عرصہ گزر چکا ہے۔ جب ان سے نند اور بھاوج میں روایتی مخاصمت اور سردجنگ کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’نند اور بھابی کے رشتے میں یہ فطری امر ہے کہ تھوڑی بہت چپقلش رہتی ہے لیکن میرا خیال ہے کہ تعلیم کی وجہ سے اب پہلے جیسی روایتی مخاصمت میں کمی آگئی ہے کیونکہ پہلے لڑائی جھگڑے بہت زیادہ ہوتے تھے۔ غالباً باآواز بلند لیکن اب اتنا فرق پڑا ہے کہ یہی مخاصمت منافقت میں بدل گئی ہے جہاں تک میری اپنی ذات کا تعلق ہے تو بحیثیت ایک نند جب میری بھابی میری صحیح بات سے اختلاف کرتی ہیں تو پھر یہ چیز میرے لیے ناقابل برداشت ہوتی ہے۔ بھائی کی شادی سے پہلے یہ ہوتا تھا کہ سب گھر والے میری بات سننے اور سمجھتے تھے حالانکہ ہم چھ بہنیں ہیں لیکن وہ گھریلو امور میں اتنی دلچسپی نہیں رکھتی تھیں اب جب سے بھابی آئی ہیں تو ان ہی کی بات سنی جاتی ہے جیسے گھر میں کوئی سیٹنگ وغیرہ ہورہی ہو تو میں کوئی تجویز دوں تو بھابی اسے نظرانداز کرتی ہیں اور عجیب بات یہ ہے کہ جب میں امی سے کہتی ہوں تو وہ بھی بھابی کی طرف داری کرتی ہیں لہٰذا اب میں خاموش ہوگئی ہوں اب میں براہ راست کہنے کی بجائے اپنی بڑی بہن کو کہہ دیتی ہوں تو وہ امی کو سمجھا دیتی ہیں اس طرح میری کچھ باتیں مانی جارہی ہیں اور کچھ توازن آگیا ہے ہاں البتہ نند اور بھابی کا فرق ضرور قائم ہے شاید یہ رشتہ ہی ایسا ہے حالانکہ میری بھابی میری خالہ زاد ہیں اور جب ہم صرف کزن تھیں تو ہماری بہت اچھی دوستی تھی لیکن جب سے یہ رشتہ داری قائم ہوئی ہے تو اب میں بہت محتاط ہوگئی ہوں جبکہ اس سے پہلے میں اس سے ہر بات شیئر کرلیا کرتی تھی۔ یہ رشتہ ایسا ہے کہ جس سے صرف اچھے روابط ہی رکھے جاسکتے ہیں میں اس بات کو تسلیم کرتی ہوں کہ ا ب میرا رویہ بھابی سے مصنوعی اور دکھاوے کا سا ہوکر رہ گیا ہے جس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ شادی سے پہلے میرا اپنے بھائی سے بہت مذاق چلتا تھا‘ اب جب میں بھائی سے مذاق کرتی ہوں تو میری بھابی کو برا لگ جاتا ہے میں تو یہی کہوں گی کہ اس رشتے کو نبھانے کیلئے زیادہ بہتر یہی ہے کہ لڑنے جھگڑنے کی بجائے آپ خاموشی اختیار کرلیں یا ایک طریقے سے ان تک بات پہنچادیں۔ اگرچہ اس رشتے میں دوست کی طرح رہنا شاید مشکل ہے لیکن ایک دوسرے کی عزت و احترام کا خیال رکھنا چاہیے۔‘‘
تعلیم کی وجہ سے روایتی چپقلش میں نمایاںکمی:سمیرا نے جامعہ کراچی سے حالیہ سیاسیات میںماسٹرز کیا ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا وہ سمجھتی ہیں کہ تعلیم عام ہونے سے نند اور بھابی کے مابین روایتی چپقلش میں کچھ کمی آئی ہے تو انہوں نے کہا ’’یہ درست ہے کہ تعلیم سے آدمی میں شعور آتا ہے اور وہ ہر بات سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ میری اپنی رائے ہے کہ غیرتعلیم یافتہ گھرانوںمیں زیادہ لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں کیونکہ میری بھی دو بھابیاں ہیں لیکن آج تک کوئی ایسی بات اختلاف کا باعث نہیں بنی جو رنجش یا حسد کو جنم دیں بلکہ جس طرح میں اس گھر کی بیٹی ہوں انہیں بھی بیٹیوں ہی کا درجہ حاصل ہے بلکہ شاید انہیں زیادہ اہمیت دی جاتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری امی کا کہنا ہے کہ ہم یہاں عارضی ہیں لہٰذا چھوٹی موٹی باتیں اختلاف کا باعث نہیں بنتیں۔ جہاں تک کوئی بات بری لگنے کا سوال ہے تو وہ سگے بہن بھائیوں میں بھی ہوجاتا ہے۔ گھر پر میرا یہی اصول ہے کہ میں پورا کچن صاف کرکے نکلتی ہوں‘ لہٰذا جب بھابی یا بہن کچن کو یونہی پھیلا کر باہر آجاتی ہیں تو مجھے یہ بات اچھی نہیں لگتی اور میں اس کا اظہار بھی کردیتی ہوں۔ میرے خیال میں نند اور بھابی اچھی دوستوں کی طرح رہ سکتی ہیں بشرطیکہ دونوں اس بات کو سمجھتی ہوں اور اختلاف رائے کو برداشت کرنے کا حوصلہ رکھتی ہوں۔ اللہ کا شکر ہے کہ میری اپنی بھابیوں سے بہت اچھی دوستی ہے اور ہمارے تعلقات کبھی خراب نہیں ہوئے۔
آمنہ سے جب اس حوالے سے پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’’میرے چھ دیور اور ایک ہی نند ہے اور ساس سسر ماشاء اللہ حیات ہیں۔ میری شادی کو 9سال ہوگئے ہیں جب سے ہی میں جوائنٹ فیملی میں رہ رہی ہوں۔ میری نند چونکہ ایک ہی تھی اور مجھ سے خاصی کم عمر تھی لہٰذا میرا رویہ اس کے ساتھ بہت دوستانہ اور اچھا تھا۔ میں نے ہمیشہ اسے چھوٹی بہن کی طرح ہی سمجھا اب تو خیر اس کی شادی ہوگئی ہے جہاں تک ناراضگی یا لڑائی جھگڑے کا تعلق ہے تو میرے خیال میں والدین کا بھی اس میں اہم کردار ہوتا ہے۔ انہیں چاہیے کہ وہ تمام بھائیوں کو برابر سمجھیں۔ میں گھر کی بڑی بہو تھی اس لحاظ سے میں توقع کرتی تھی کہ مجھے اور میرے شوہر کو اہمیت دی جائے لیکن اکثر ایسا ہوتا تھا کہ میری نند میرے شوہر کو نظرانداز کرتی تھی اور چھوٹے بھائی کی طرف داری کرتی تھی۔ یہ چیز مجھے اچھی نہیں لگتی تھی لہٰذا اس سے کبھی کبھار ماحول خراب ہوجاتا تھا لیکن چونکہ میں بڑی تھی اس لیے سمجھداری سے کام لیتے ہوئے معاملے کو زیادہ خراب ہونے سے بچالیتی تھی۔
آراء کی روشنی میں:مختلف خواتین کے خیالات جاننے کے بعد چند باتیں بڑی نمایاں ہوکر سامنے آئی ہیں۔ سب سے پہلی بات تو یہ کہ نند اور بھاوج کے درمیان جاری روایتی سرد جنگ کو کم کرنے‘ ختم کرنے یا جاری و ساری رکھنے میں ساس کا کردار سب سے زیادہ اہم ہوتا ہے اگر وہ غیرجانبداری اور انصاف سے کام لے تو نہ صرف گھر کے ماحول کو خراب ہونے سے بچایا جاسکتاہے بلکہ نند‘ بھاوج میں دوستی اور ہم آہنگی کو بھی فروغ مل سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھاوج کی ماںکا کردار بھی اپنی جگہ کم اہمیت نہیںرکھتا۔ اسے چاہیے کہ وہ زیادہ بہتر انداز میں اپنی بیٹی کی تربیت کرے۔ اسے خاص طور پر درگزر‘ لحاظ اور بڑوں کی عزت و احترام اور چھوٹوں سے شفقت کرنا سکھائے۔ یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ تعلیم سے بہرحال رویوں میں تبدیلی ضرور آئی ہے۔ تنگ نظری پر مبنی رویے کم ہوئے ہیں‘ لوگوں میں اختلاف رائے برداشت کرنے کا حوصلہ پیدا ہوا ہے۔ الزام تراشی کی روش بھی پہلے جیسی نہیں رہی۔ اسے کوئی منافقت کہے یا صبرو تحمل کا نام دے بہرحال پچاس برس پہلے کی طرح اب گھروں سے نندوں اور بھابیوں کی گرجتی آوازیں سنائی نہیں دیتیں اور یہ چیز اس بات کی علامت ہے کہ لوگ اختلاف کے ساتھ زندہ رہنا سیکھ رہے ہیں اور جیسے جیسے مزید وقت گزرے گا لوگوں میں شعور بڑھے گا اور بہت ممکن ہے کہ نند اور بھابی میں جاری روایتی سرد جنگ میں مزید کمی آئے۔ یہ چیز بھی عموماً سامنے آئی ہے کہ نندوں کو شکایت رہتی ہے کہ شادی کے بعد بھائی بھائی نہیں رہتا یا پھر بدل جاتا ہے۔ ہمارے خیال میں نندوں کو اس معاملے میں حقیقت پسندانہ رویے کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ کیونکہ یہ لازمی سی بات ہے کہ مرد کیا عورت دونوںکی زندگی یکسر ایک نئی ڈگر پر چل نکلتی ہے اور کل کو جب انکی شادیاں ہوں گی تو یقیناً ایسے ہی حالات سے انکا بھی سامنا ہوگا۔ ہمارے خیال میں اگر شادی سے پہلے ہی نندیں ذہنی طور پر تیار رہیں کہ اب بھائی کی مصروفیات اور سرگرمیوں میں فرق آئے گا تو شاید پھر چھوٹی چھوٹی باتیں ان کیلئے پریشانی کا سبب نہ بنیں جس کا غصہ اکثر بیچاری بھابیوں پر اترتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں