ماہ ستمبر دو رنگے بہروپ کا آئینہ دار ہے‘ گرمی الوداعی پہلو بدل رہی ہوا سے دوچار۔ یہ مہینہ اپنے موسمی اثرات کے اعتبار سے ماہ اگست کا توام قرار دیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ اس مہینہ میں بھی قریب قریب انہی طبی ہدایات اور حفظان صحت کی تدابیر کو ملحوظ رکھنے کی ضرورت ہے جن کا مذکور اگست کے بارے میں آچکا ہے۔واضح رہے کہ ستمبر کا مہینہ (بالخصوص اس کا نصف اول) بھی اپنے موسمیاتی اعتبارات کے لحاظ سے اسی موسم برسات کا اختتامی دور مقصود ہوتا ہے جس کا آغاز اول جولائی میں ہوتا ہے۔ اس مہینے کی ہواؤں میں بھی وہی مسموم سی تاثیر و کیفیت پنہاں ہوتی ہے جو جولائی اور اگست کی برساتی فضاؤں کا خاصہ ہے۔ البتہ اس مہینے میں یہ کیفیت اپنے ردعمل کے اعتبار سے کسی قدر بتدریج انحطاط پذیر ہونے لگتی ہے۔دھوپ نکلنے اور گاہے بگاہے مطلع ابرآلود ہونے (ہر دو صورتوں میں) واضح طور پر دو رنگے بہروپ کا آئینہ دار ہے۔ یعنی دن اتنا گرم گویا ابھی موسم گرما کا شبابی دم خم برقرار ہے اور راتیں ایسی خنکی لیے ہوئے جیسے موسم سرما حملہ آور ہونے کیلئے سروں کے عین اوپر پرتول رہا ہے۔
ستمبر کے مہینے میں مچھروں کا حملہ انسانوں کی مملکت صحت پر اپنے مضری حربے استعمال کرتا ہے۔ستمبر میں موسمی تغیر زیادہ پراسرار صورت اختیار کرلیتا ہے ستمبر کے وسط اور بعض اوقات آخری دنوں تک اگست کی مخصوص موسمی سوغات یعنی ملیریا بخار کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ستمبر کے دوران بالائے زمین اور اندرون زمین موجود مرطوب آب و ہوا چھوٹے موٹے عوارض یعنی پھوڑے پھنسیاں‘ بدہضمی ( جس میں معمولی نقص ہضم قواء معدہ کی ماؤف سی استعداد بھی شامل ہے) اختلاء طبیعت‘ اعضاء شکم کا عدم توازن‘ اعضاء شکنی غیرواضح‘ تبخیری کیفیت‘ کمزوری اعصاب و اخلاط اربعہ یعنی صفراء سودا‘ بلغم ہونے کی علامت کا آغاز ابھرتے ہیں اور اس سلسلہ میں جب تک کسی ماہر مستند معالج سے رجوع نہ کیا جائے ان تمام عوارض کی نوعیت و کیفیت پراسرار اور ناقابل فہم رہتی ہے۔
اس لیے یہ مہینہ بھی اچھی خاصی احتیاطی تدابیر کا متقاضی ہے اور اس کو محض موسم سرما کا خیرمقدمی اور موسم گرما کا الوداعی زمانہ سمجھ کر لاپرواہی سے کام نہیں لینا چاہیے۔
قدیم و جدید طبی تحقیقات کی رو سے ستمبر کا مہینہ بھی اگست کی مرطوب اثر ہے۔ اگرچہ ظاہری طور پر اگست کے موسمیاتی ماحول سے خاصا مختلف اور نسبتاً بہت کم عوارض پرور محسوس ہوتا ہے لیکن واقعتاً اس مہینے فضا کی مرطوب کیفیت کچھ اور بھی بڑھ جاتی ہے اور آب و ہوا کی تاثیر مسموم سی ہوجاتی ہے اور یہی سبب ہے کہ یہ موسم جس بخار کو تخلیق کرتا ہے اور پروان چڑھاتا ہے وہ بالعموم رطوبت کی زیادتی سے ہی معرض وجود میں آتا ہے۔ نیز صفراء‘ سودا‘ بلغم اور خون میں احتراق پیدا ہوتا ہے۔ یہ رطوبت ان میں غلبہ پالیتی اور یوں یہ کثیف روح بخار کا موجب بنتی ہے۔ یہی سبب ہے کہ مریض اس وحشت ناک صورت حال سے انتہائی پریشان خاطر اور بےبس ہوکر رہ جاتا ہے۔ دانت بجنے لگتے ہیں اور موسم سرما نہ ہونے کے باوجود دو دو تین تین لحاف اوڑھنے پڑجاتے ہیں۔ یہ علامات درحقیقت اس امر کی نشاندہی کرتی ہیں کہ جسم میں بلغم کی زیادتی ہے جو سوختہ ہوکر خون میں شامل ہوگئی ہے۔
ماہرین طب جدید کی تحقیق کی رو سے یہ بخارانوفلیس نامی ایک مچھر کے کاٹنے سے رونما ہوتا ہے چنانچہ جب یہ مچھر کاٹتا ہے تو اس کا زہر خون تک میں سرایت کرکے خون کے سفید ذرات کو بے حس و ماؤف کردیتا ہے جس کی وجہ سے جسم میں خنکی اور کپکپاہٹ پوری شدت کے ساتھ لہرانے لگتی ہیں۔
میٹھا پھل (ایک غیرمترقبہ نعمت)
مقام شکر ہے اور اہل علم و نظر اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہیں کہ حکیم مطلق کی حکمت بالغہ نے ہر موسم کے مضراثرات سے فطری تحفظ کیلئے ایسی ایسی غذائی نعمتیں تخلیق فرمادی ہیں کہ اگر ان کا سلیقہ مندانہ اور مناسب استعمال جاری رکھا جائے تو اکثر و بیشتر عوارض کسی لمبے چوڑے معالجاتی جھنجھٹ اور پریشانی و زیر باری کے بغیر صرف غذائی اعتبار سے ہی روبہ اصلاح ہوجاتے ہیں اور فی الواقعی کسی باقاعدہ اور مسلسل معالجہ کی نوبت ہی نہیں آتی۔لیموں شیریں (جو میٹھا پھل کے نام سے موسوم ہے) کو ہی لیجئے‘ یہ اگست و ستمبر کے اکثر و بیشتر بخاراتی عوارض‘ طبی اضمحلال‘ توازن اخلاط اور کام و دہن کے خوش ذائقے کے لیے ہر لحاظ سے تریاق الاثر ہے۔حمی لرزہ کا تیربہدف علاج‘ صفراء کا قاطع‘ بلغم سوختہ کا دافع‘ طبی کثافت کو دور کرنے والا اور نجانے کیا کیا خصوصیات حکیم مطلق کی حکمت بالغہ نے اس پھل کے رس میں سمورکھی ہیں لیکن کس قدر کوتاہ اندیشی‘ کم نظری اور بدنصیبی ہے ان لوگوں کی جو اسے محض ایک قوی اور سستا سا پھل سمجھ کر زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔بچوں کی کالی کھانسی: چھوٹے بچوں پر اس عارضہ کا حملہ بڑا ہی مہیب اور درد ناک اثرات کا حامل ہوتا ہے۔ سو واضح رہنا چاہیے کہ زیادہ تر ستمبر کے مہینے میں ہی بچوں میں اس اذیت ناک کھانسی کی علامات ابھرا کرتی ہیں۔ جو عدم احتیاط و علاج کے باعث آگے چل کر شدید نتائج کا پیش خیمہ ثابت ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں ذیل کی غذائی تدبیر کو ہمیشہ ملحوظ رکھیں۔بچہ‘ شہد اور حفظان صحت: بچوں کو حفظ ماتقدم کے طور پر خالص شہد حسب العمر مقدار میں تھوڑا تھوڑا‘ دن میں دو چار مرتبہ ضرور چٹائیں انشاء اللہ العزیز آپ کا بچہ ہر قسم کے موسمی عوارض سے محفوظ رہے گا۔
چند ضروری احتیاطیں: اس مہینے رات کو سوتے وقت (خواہ کمرہ میں پنکھا ہی کیوں نہ ہو) دروازہ بند نہ کریں کیونکہ اس مہینے کی ہوا میں حبس کی بھی کیفیت ہوتی ہے جس سے بعض عوارض کے پیدا ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔ زیادہ تر ترش اشیاء کے استعمال سے پرہیز کریں کیونکہ ان سے نزلہ‘ زکام‘ بخار اور دیگر امراض سینہ کے رونما ہونے کا قطعی احتمال ہے۔اس مہینے میں نزلہ کے بگاڑ کی ابتدا ہوجایا کرتی ہے۔ اس لیے نزلہ ہونے کی صورت میں فوراً اس کی اصلاح کی کوشش کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں