ایک عمر رسیدہ بزرگ بیان فرما رہے تھے کہ انگریزوں کے دور حکومت میں اعلیٰ آفیسر سے ادنیٰ ملازم تک کو ڈیوٹی کا بڑا پابند ہونا پڑتا تھا ملکی حالات یا موسمی تبدیلیاں آڑے نہیں آتی تھیں‘ وقت کی پابندی کا بڑا خیال رکھا جاتا تھا‘ ایک جنرل بھی ایک دومنٹ لیٹ ہونے کی جرأت نہیں کرسکتا تھا۔ ڈیوٹی میں کوتاہی اور لاپرواہی کا سخت نوٹس لیا جاتا تھا۔ حیلے بہانے کارگر ثابت نہ ہوتے تھے۔ سردیوں کے موسم میں خوب برفباری ہوتی تھی‘ سڑکیں گلیاں وغیرہ بند ہوجایا کرتی تھیں‘ دکاندار لوگ بڑی تگ و دو کرکے دکانیں کھولتے‘ اس زمانے میں آج کی طرح سہولتیں میسر نہ تھیں۔ گرم لباس بھی کم میسر تھا‘ بھیڑوں کی اون کتر کر کات کر گھروں میں بنیان (سویٹر) اور جرابیں بنائی جاتی تھیں‘ سوتی کپڑے کھدر وغیرہ اور ملیشیا جیسے کپڑوں کا استعمال تھا۔ ایک جوڑا کپڑا کئی کئی سال پہننا پڑتا تھا جہاں سے پھٹ جاتا وہاں پیوندکاری کردی جاتی۔ ہر چیز نہایت ارزاں تھی مگر پیسہ کم تھا۔ آسودہ حال لوگ شلوار اور قمیص پہنتے اور سخت سردی میں کمبل اوڑھ لیتے۔ لکڑی کوئلہ عام تھا۔ چند ٹکوں میں اچھا گزر ہوجاتا۔ دکانوں میں کوئلہ کی انگیٹھی جلائی جاتی‘ ہاتھ پاؤں گرم کیے جاتے۔ ایک سویپر صبح سویرے سڑکیں اور گلیاں صرف ایک قمیص اور شلوار میںصاف کرتا نظر آتا۔ ہم حیران ہوئے کہ اس کو سردی نہیں لگتی ایک دن ہم نے اس کو اپنے پاس بلایا اور پوچھا کہ بھائی تم اس سردی میں ایک قمیص پہنتے ہو تمہیں سردی نہیں لگتی؟ یہ بات سن کر ہنس پڑا اور جواب دیا کہ بالکل نہیں۔ اگر سردی لگتی تو اوپر کوئی چادر وغیرہ اوڑھ لیتا‘ ہم نے کہا کہ کیا کھاتے ہو ہمیں بھی بتاؤ۔ کہنے لگا ڈیوٹی کا ٹائم ہے چھٹی کرکے آؤں گا اور پھر بتاؤں گا۔ شام کو وہ چھٹی کرکے آیا اور گرم رہنے کا نسخہ بتانے لگا۔ کہنے لگا کہ ایک دن ایک سنیاسی بابا سردیوں میں اس کے مہمان ہوگئے اس نے ان کی خاطر تواضع شروع کردی۔ انگیٹھی میں کوئلہ جلا کر سامنے رکھ دی پھر بابا جی کہنے لگے کہ کوئلہ کا دھواں زہریلا ہوتا ہے اس کو باہر لے جاؤ‘ مجھے سردی نہیں لگتی اور پھر مخاطب ہوئے کہ گھوڑوں یا خچروںکاپیشاب اور ایک تولہ ہڑتال ورقی اورایک چھوٹی کنی لانے کو کہا۔ تھوڑے ہی فاصلہ پر فوجیوں کی خچریں تھیں۔ ان سے سوال کیا تو انہوں نے پیشاب لانے کی اجازت دے دی۔ دو تین منٹ میں مجھے پیشاب مل گیا پھر پنساری کے پاس سے ہڑتال بھی لے لی اور راستے سے واپسی پر برتن والوں کی دکان سے ایک کنی بھی خرید کر واپس لوٹ آیا اور باباجی کے سامنے رکھ دیں۔ باباجی نے کنی میں نصف تک پیشاب ڈالا اور ہڑتال ڈال دی کنی کے اوپر ڈھکنا رکھا پھر گیلی مٹی میں روئی وغیرہ ملا کر ڈھکن کے اردگرد خوب لیپ دیا۔ مٹی ذرا ذرا خشک ہوئی تو کوئلوں کی ہلکی آنچ پر کنی کو رکھ دیا۔ گھنٹہ ڈیڑھ بعد کنی اٹھائی اور فرش پر رکھدی جب خوب ٹھنڈی ہوگئی تو باباجی نے بڑی احتیاط سے ڈھکن پر لگی مٹی ہٹائی اور ڈھکن اٹھایا۔ ڈھکن کے ساتھ پوڈر کی طرح دوائی لگی ہوئی تھی ڈھکن کاغذ پر رکھا اور چھری سے وہ دوائی کھرچ کر شیشی میں ڈال دی۔ کہنے لگے کہ آدھی رتی تا ایک رتی مکھن یا بالائی میں صبح گھی سے ناشتہ کرنے کے بعد کھالیا کرو اور ایک پاؤ دودھ نیم گرم پی لینا پھر جدھر مرضی ہے‘ جاؤ کام کرو۔ ایک خوراک میں نے ان کی موجودگی میں کھائی۔ بعد میں ہفتہ دس دن کھا کر چھوڑ دی۔ گھر سے نکل کرسردی سے لطف اندوز ہوتا ہوں جس طرح گرمیوں میں لوگ مری اور نتھیاگلی جاکر ٹھنڈی ہوا سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ دوسرا ایک نسخہ بابا نے بتایا کہ بارہ سنگا کے سینگ کا ایک ٹکڑا گھیگوار میں لپیٹ کر جلتے تندور میں رکھ دو گھیگوارجل کر سیاہ ہوجائے گی اور سفید حالت میں سینگ کا ٹکڑا آرام سے آگ بجھ جانے کے بعد نکال کر سفوف کرکے شیشی میں رکھ لیا کرو۔ آدھی آدھی رتی معصوم بچوں کو اور ایک رتی بڑوں کو نمونیہ اور سرد امراض میں دیا کرو یہ دونوں چیزیں بقول اس کے وہ ہر سال تیار کرکے رکھ لیتا تھا اور مفت تقسیم کرتا تھا۔ بزرگ فرمانے لگے کہ یہ سن کر ہم سے بھی رہا نہ گیا ہم نے بھی دوائی بنانی شروع کردی اور سردیاں مزے سے گزرنے لگیں۔ آج کل وہ نہیں بناتے کیونکہ اس دور میں ڈالڈا اور چائے کا نام نہ تھا ہر امیرو غریب دیسی گھی استعمال کرتا تھا آج کل لوگوں کو ڈالڈا کھانا ہی نصیب نہیں ہوتا دیسی گھی کہاں سے کھائیں گے؟؟؟؟
موجودہ صدی کے بھی حکیم صاحبان نے جڑی بوٹیوں پر بہت ریسرچ کی ہے اور نہایت ہی آسان علاج بہت ہی مہلک امراض کیلئے دریافت کیے ہیں۔ راقم کو بھی اس شعبہ سے بہت دلچسپی رہی مگر بدقسمتی سے علم نہ حاصل کرسکا۔ وجہ کسی مخلص رہنما کا نہ مل سکنا تھا۔ بدقسمتی سے ہمارے پیارے ملک میں جگہ جگہ جعلی حکیموں اور جعلی پیروں نے ڈیرے لگائے ہوئے ہیں جدھر دیکھو ’’ایرا غیرا نتھو خیرا‘‘ حکیم‘ ڈاکٹر نظر آتے ہیں‘ بڑے بڑے بورڈ مطب کے سامنے آویزاں ہیں۔ انتہائی دکھ ہوتا ہے جب ہم ایک ان پڑھ جاہل مطلق کو بھی حکیم صاحب یا ڈاکٹر صاحب کہہ کر پکارتے ہیں اورایک اونچے درجہ کے پڑھے لکھے فاضل طب کو بھی اسی نام سے پکارا جاتا ہے۔ کتنا ظلم اور ناانصافی ہے۔ یہ اناڑی حکیم و ڈاکٹر اور جعلی پیر اپنے جہالت کے تیروں سے مخلوق خدا کی زندگیاں تباہ کررہے ہیں۔ یہ صحت اور ایمان کے ڈاکو ہیں جو ان کے ہاتھوں برباد ہوگیا ان کو اصل حکیم/ ڈاکٹر اور اولیاء بھی شاید ٹھیک نہیں کرسکتے تمام قارئین سے التماس ہے کہ عبقری رسالہ کو باقاعدگی اور غور سے پڑھیں۔ اس میں سینے کے راز روحانی اور جسمانی بیماریوں کیلئے صرف رضائے الٰہی کی خاطر لکھنے کا بیڑا جناب حکیم صاحب نے اٹھایا ہے۔ ان پر بغیر سوچے سمجھے عمل کریں اللہ پاک تمام بیماری چاہے جسمانی ہوں یا روحانی دور کردیں گے۔ حکیم صاحب کیلئے دل کی گہرائیوں سے دعا کریں کیونکہ ایسے لوگ دنیا میں کم پیدا ہوتے ہیں۔
ایک نسخہ تلی کی خرابی کیلئے مخلوق خدا کی خدمت اور رضائے الٰہی کیلئے پیش کررہا ہوں جو کہ سوفیصد مجرب ہے۔ حکیم جالی نوس کا قول ہے کہ تلی جتنی چھوٹی ہوگی اتنا ہی بدن موٹا اور تندرست ہوگا بڑی تلی ہونے سے بدن لاغر اور کمزور ہوتا ہے۔ تلی کا بڑھ جانا یا ورم ہونا دنیا کے لطف سے محروم کردیتا ہے۔ بعض حکماء نے اس کے علاج کیلئے انجیر کا اچار مفید قرار دیا ہے مگر ایوب صاحب نے دارچینی کا سفوف بتایا ہے جو انہوں نے ایک بزرگ حکیم سے حاصل کیا ہے۔ دارچینی کا سفوف کرلیں۔ انڈا فرائی کرکے اس پرا یک یا دو چٹکی دارچینی کا سفوف چھڑک کر ناشتہ میں کھالینے سے تلی کی ہر بیماری ختم ہوجاتی ہے۔کچھ عرصہ پابندی سےکریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں