کسی صحرا میں ایک کوا رہتا تھا جہاں ایک بڑے سے درخت پر اس کا گھونسلا تھا کوا کبھی کبھی صحرا میں گھومنے پھرنے کیلئے نکل جاتا اور جہاں دیکھتا کہ حیوانات نے ایک دوسرے کو شکار کیا ہے تو ان کی ہڈیاں درخت کے قریب لے آتا اور باقی ماندہ گوشت کھالیتا اور درخت پر بیٹھ کر صحرا کا نظارہ کرتا رہتا تھا وہ رات کو اپنے گھونسلے میں سوتا تھا اور خوشحال تھا کہ اس صحرا میں کوئی دوسرا درخت نہیں ہے نہ ہی دوسرے پرندوں کی آمدورفت ہے نہ ہی میرے کام میں کوئی مزاحم ہوتا ہے۔ اتفاق سے ایک دن ایک سفید اور موٹے تازے نیولے کا گزر اسی صحرا سے ہوا جب وہ درخت کے پاس آیا تو اسے ہڈیوں کی خوشبو سونگھائی دی۔ چونکہ رات ہوچکی تھی اس لیے گھاس کے نیچے ایک پناہ گاہ تلاش کرلی اور وہیں سو گیا۔
جب صبح ہوئی تو اس درخت کے نیچے آیا اور گھومنے پھرنے لگا کہ اس کی رہائش کے لیے کوئی مستقل ٹھکانہ موجود ہے یا نہیں۔کوا بھی اپنے گھونسلے میں ابھی ابھی واپس آیا تھا اور ایک ٹہنی پر بیٹھ کر صحرا کا نظارہ کررہا تھا کہ اچانک اسے درخت کے نیچے نیولہ دکھائی دیا اس لیے وحشت سے کانپنے لگا اور کہا آخر یہاں بھی ایک دشمن آگیا ہے؟ اگرچہ کوے کو معلوم تھا کہ نیولے کی رسائی درخت اور گھونسلے تک نہیں ہے لیکن پھر بھی کہنے لگا کہ ’’دشمن تو دشمن ہی ہوتا ہے اگر نیولے نے یہیں رہائش اختیار کرلی تو بہت برا ہوگا‘ اس طرح نہ تو میں درخت کے نیچے زمین پر بیٹھ سکوں گا اور نہ ہی مردہ پرندوں اور حیوانات کو یہاں لاسکوں گا اب تو یہی نیولہ میری خوراک میں شریک ہوکر میری جان کا دشمن بن جائے گا۔
کوے کا دھوکہ:کوے نے سوچا کہ کسی دوسری جگہ جاکر نیا گھونسلا بنالے لیکن پھر کہنے لگا گھونسلا بنانا بہت مشکل ہے اور سب جگہ نیولے رہتے ہیں۔ بہتر یہی ہوگا کہ نیولے سے گفتگو کا آغاز کروں اور اس سے دوستی کا اظہار کروں اور اسے دھوکہ دوں تاکہ میری جان کا قصد نہ کرے۔ یہ سوچتے ہی کوے نے درخت سے ایک سبز پتہ توڑا اور نیولے کے سامنے ڈال دیا اور اسے آواز دیتے ہوئے کہا کتنے تعجب کی بات ہے کہ ہمیں یاد کیا ہے اور تمہارا اس صحرا سے گزر ہوا ہے؟ کیا تم چاہتے ہو کہ یہیں رہو؟
نیولا اپنے دل میں سوچنے لگا کہ کوے کو کسی ہمراہی کی ضرورت ہے اس لیے کہ میں نے پہلے کبھی اسے نہیں دیکھا ہے لیکن اب چونکہ دوستی کا دم بھررہا ہے تو بہتر ہوگا کہ آج ناشتہ یہیں کروں۔ اس کے بعد کوے سے کہا میں تمہارے تعارف کا مشکور ہوں‘ ہاں! تم یہاں کیا کام کرتے ہو؟ میں نے ابھی یہاں رہنے کا فیصلہ نہیں کیا اگر میرا یہاں رہنا تمہارے کام میں رکاوٹ بنتا ہے تو یہاں سے چلا جاتا ہوں میں کسی کیلئے بوجھ نہیں بننا چاہتا۔
کوے نے جب نیولے کی نرم گفتاری سنی تو اس کا دل مضبوط ہوگیا اور درخت کی نچلی ٹہنی پر بیٹھ کر کہنے لگا نہیں‘ نہیں! تم میرے لیے کسی رکاوٹ کا سبب نہیں ہو لیکن مجھے آدم زاد اور دوسرے پرندوں سے آزار پہنچا ہے اس لیے تنہائی میں رہنے کی عادت بنالی ہے اور کئی سالوں سے یہاں رہ رہا ہوں‘ ہاں تمہاری اگرکوئی رہائش ہے یا نہیں ہے اگر یہاں رہنا چاہتے ہو تو بڑی خوشی سے رہ سکتے ہو؟ اس کے بعد کوا اڑا اور نیولے کے سامنے زمین پر بیٹھ گیا اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہنے لگا‘ یہ درخت سائبان ہے۔
نیولے کی پریشانی:نیولا سوچنے لگا یہ کوا تو بڑا عجیب پرندہ ہے کہ اکیلے زندگی بسر کررہا ہے اور مجھ سے دوستی قائم کرنا چاہتا ہے حالانکہ میں تو نیولا ہوں۔ دیکھو! کیسی جرات سے میرے سامنے بیٹھ گیا ہے اور مجھے یہیں رہنے کی دعوت دے رہا ہے میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے ایسا بے پرواہ کوا کبھی نہیں دیکھا حالانکہ میں نے سن رکھا تھا کہ کوے تو نیولے سے ڈرتے ہیں لیکن یہ تو بے خوف و خطر مجھ سے باتیں کررہا ہے۔ معلوم نہیں اس نے اپنے دل میں کونسا نقشہ بنارکھا ہے۔ ہاں! اس سے ایک بات پوچھوں گا اگر اس نے جھوٹ سے کام لیا تو ثابت ہوجائے گا کہ اس کی دوسری باتیں بھی جھوٹی تھیں اگر اس نے سچ کہا تو اس کا خلوص ثابت ہوجائے گا کہ مجھ سے نہیں ڈرتا اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس کا کوئی ہمراہی اور مددگار بھی ہو اس لیے بہتر ہوگا کہ احتیاط سے کام لوں۔
یہ سوچتے ہی نیولے نے پوچھا کیا یہ درخت تم نے خود کاشت کیا ہے؟ کوے نے سوچا کہ معلوم ہوتا ہے نیولا بڑا احمق ہے بہتر ہوگا کہ اپنے آپ کو بزرگ ثابت کروں اور اس پر اپنا رعب قائم کروں اس لیے جواب دیا ہاں! یہ درخت میں نے خود ہی کاشت کیا ہے بلکہ اس صحرا کا سبزہ بھی میں نے لگایا ہے۔
نیولے نے کہا‘ آفرین! تم تو عمدہ سلیقہ کے مالک ہو‘ ہاں! یہ ڈھانچے اور ہڈیاں بھی انہی جانوروں کے ہوں گے جنہیں تم نے شکار کیا ہے؟ کوے نے جب دیکھا کہ نیولے نے اس کی باتوں پر یقین کرلیا ہے تو دلیر ہوگیا اور قدرے آگے بڑھ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا اور کہا ہاں! میں کبھی کبھار شکار بھی کرلیتا ہوں۔نیولے نے پوچھا‘ تم کس طرح شکار کرتے ہو؟ اس دوران نیولے نے کوے کو جواب دینے کا موقع نہ دیا اور اس کی طرف اچھل کر اسے پنجوں اور دانتوںسے پکڑلیا اور کہا کیا اس طرح؟ کوا چلایا اور کہا‘ ہائے؟ مجھ ضعیف کو کیوں پکڑلیا ہے کیا انصاف اور دوستی کی رسم اور عادت یہی ہے۔نیولے نے کہا‘ نہیں‘ میں نے کب کہا ہے کہ دوستی اور انصاف کی رسم یہی ہے؟ البتہ تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ نیولے کی عادت اور رسم یہی ہے۔ میں نے تو تم سے دوستی کا دعویٰ نہیں کیا بلکہ یہ تم نے خود ہی کہہ رہے ہو؟ درخت کاری‘ سبزہ کاری اور شکار بھی تمہاری ہمت اور طاقت کی نشانیاں ہیں اگر تم ضعیف اور کمزور ہوتے تو اسی طرح درخت پر بیٹھے رہتے اور دوستی کا نہ بھرتے اور میں بھی یہاں سے چلا جاتا۔ تو نے خود ہی سبزپتہ میری طرف پھینکا اور خود ہی مجھے یہاں رہنے کی دعوت دی‘ تمہارے بال اور پر موجود تھے لیکن تم نے پرواہ نہ کی حالانکہ تمہیں بخوبی علم ہے کہ نیولے تو کوے کے دشمن ہوتے ہیں! بلکہ میرے قریب آتے گئے اور اپنے آپ کو میرے پنجے میں ڈال دیا اب تمہارے کیے کا کوئی علاج نہیں ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں