وضو کے پانی کی برکات
1988ء کی بات ہے جب میں گورنمنٹ مسلم ڈگری کالج چک 41ج۔ ب تحصیل وضلع فیصل آباد میں بطور لیکچرار اسلامیات کام کررہا تھا۔ کالج کے ساتھ سرکاری کوارٹر میں میری رہائش تھی صحن میں ایک مختصر سی جگہ پر میں نے ایک ریسرچ کی۔ ایک چھوٹی سی کیاری میں ٹماٹر کی پنیری لے کر پانچ پودے اس طرح لگائے کہ کیاری کے ایک حصہ میں چار پودے اور دوسرے حصہ میں ایک پودا لگایا۔ ایک پودے والی جگہ کے ساتھ اینٹیں رکھ کر اپنے وضو کیلئے جگہ بنائی تاکہ اس ایک پودے کو صرف وضو والا پانی دیا جائے اور دوسرے چار پودوں کو نلکے کا عام پانی دیا جائے۔ ایک پودے والی جگہ تجربے والی تھی اور چار پودوں والا گروپ ویسے ہی تھا۔ دونوں گروپوں کو کھاد نہیں دی‘ روشنی‘ دھوپ دونوں گروپوں میں یکساں تھی‘ پودے صحت کے لحاظ سے ایک جیسے تھے۔ بارش کا پانی دونوں گروپوں کو یکساں آیا۔ تجرباتی پودے کو پانچ وقت کے وضو والا پانی دیتا رہا۔ دونوں گروپوں کو پھول لگے اور ٹماٹر لگنے شروع ہوگئے میں برابر دونوں حصوں کی نگرانی کرتا رہا اور اور توڑے جانے والے ٹماٹروں کی گنتی نوٹ کرتا رہا‘ آخر میں نتیجہ یہ رہا۔
چار پودوں کو لگنے والے ٹماٹروں کی اوسط فی پودا: 42 ٹماٹر
تجرباتی اکیلے پودے کے ٹماٹروں کی تعداد: 123ٹماٹر
میں اس تجربہ کے بعد وضو کے پانی کی برکات پر حیران رہ گیا۔
ایک طالب صادق کا سفر حج
یہ 1981ء کی بات ہے کہ ہمارے علاقے میں ایک چھوٹی سی مسجد تھی جس کی امامت میرے والد محترم کراتے تھے ان کی وفات کے بعد امام کی ضرورت محسوس ہوئی تو مجھے ایک دن خواب آیا کہ ہمارے اکابرین اسلام کا قافلہ ہمارے گاؤں کی طرف پیدل آرہا ہے ان میں ایک سادہ سے بزرگ آگے آگے ہیں اور ہمیں بتایا گیا کہ تمہاری مسجد کیلئے یہ امام لائے ہیں۔ دوسرے روز وہی خواب میں نظر آنے والے بزرگ امام ہمارے گاؤں آئے اور میرے بھائی جان سے ملے بھائی نے ان سے کہا کہ اگر آپ ہماری مسجد سنبھال لیں تو بڑی مہربانی ہوگی۔ تو انہوں نے فرمایا کہ میرے دل میں یہی خواہش تھی کہ آپ مجھے اس مسجد کیلئے قبول کرلیں۔ میں نے انہیں جب دیکھا تو وہ وہی بزرگ تھے جن کو خواب میں دیکھا تھا۔ ان کا نام حاجی احمد بخش تھا ان کی بیوی اور تمام اولاد اللہ کو پیاری ہوچکی تھی اور اب وہ اکیلے تھے۔ حاجی احمد بخش مرحوم فرماتے ہیں کہ جس زمانہ میں میں نے حج کا ارادہ کیا تھا ان دنوں حج کے تمام کاغذات قرعہ اندازی اور منظوری کراچی میں ہوتی تھی۔ وہ فرماتے ہیں کہ میں مختصر سامان لے کر حج کی نیت سے کراچی گیا‘ وہاں حج کیلئے میرا نام نہ نکلا‘ میں بہت پریشان ہوا کہ اب کیا کروں‘ دل میں حج کا پختہ ارادہ تھا‘ شوق اور ولولہ تھا‘ سامان لے کر ساحل سمندر کے ساتھ چلتا رہا‘ ایک جگہ تمام سامان اور زاد ِراہ پھینک کر سمندر میں چھلانگ لگادی کہ تیرتا جاؤں گا جب اعضاء جواب دیدیں گے تو اسی راستہ میں جان قربان کردوں گا‘ مگر واپس نہیں جاؤں گا۔ اب تیرتے تیرتے ساحل تقریباً پچاس میل دور ہوچکا تھا‘ موت شہادت کا یقین ہوچلا تھا کہ کسی دوسرے ملک کی ایک کشتی قطر جارہی تھی انہوں نے دیکھا کہ ایک بندہ خدا یہاں سمندر میں پھنسا ہوا ہے۔ انہوں نے کشتی کا رخ ان کی طرف موڑ لیا اور انہیں پانی سے نکال کر کشتی میں بٹھا لیا۔ چند دنوں کے بعد کشتی منزل مقصود پر پہنچ گئی اور انہوں نے وہاں سے پیدل مکہ کی طرف چلنا شروع کردیا۔ ان دنوں ویزا کی پابندی نہیں ہوتی تھی۔ ایام حج سے ایک دن قبل مکہ پہنچ گئے اور اللہ کا شکر ادا کیا۔ وہاں حج بیت اللہ کی سعادت حاصل کی پھرمدینہ منورہ حاضری دی۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے غیب کے خزانوں سے ان کی واپسی کا بندوبست کردیا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں