بری صحبت اور عادات کا اثر:بچوں کی تعلیم کے اہم مقاصد میں ایک یہ ہے کہ بچہ بااخلاق اور متمدن شہری ہو اور دوسرا انہیں موزوں پیشے کی تربیت دیکر معاشی ذمہ داریوں کے قابل بنانا۔ تعلیم کا اہم مقصد کیونکہ تہذیب و اخلاق کے زیور سے آراستہ کرنا ہے اگر بچوں کو کسی قسم کی کوئی تعلیم نہ دی جائے تو ان میں جہالت‘ اکھڑپن اور طرح طرح کی بداخلاقیوں کے پیدا ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔ وہ بچے جو سکول نہیں جاتے اور اپنا سارا وقت گلی کوچوں میں آوارہ پھرتے گزارتے ہیں وہ اکثر بری عادتوں کا شکار ہوجاتے ہیں۔ بچپن کی بری صحبت اور بری عادات کا اثر دیرپا ہوتا ہے۔ ایسے بچے بڑے ہوکر بھی اپنی عادات تبدیل نہیں کرسکتے۔
بچوں کی تربیت اور والدین کا کردار:یہ بات بھی درست نہیں ہے کہ وہ تمام بچے جنہیں تعلیم کے مواقع ملتے ہیں وہ بداخلاقی سے محفوظ رہتے ہیں۔ بچوں کی تعلیم کے بارے میں ہم کامیاب رہے ہیں یا نہیں اس بات کا جائزہ لینے کیلئے ایک طریقہ یہ ہے کہ بچوں کی عام اخلاقی حالت دیکھی جائے۔ اگر وہ اپنی روزمرہ کی زندگی میں اخلاق کی عام اور ابتدائی اقدار پر پورے اترتے ہوں تو سمجھ لینا چاہیے کہ ہم ان کی تعلیم میں کامیاب رہے ہیں اور اگر ہماری تعلیم و تربیت کے باوجود بچے بداخلاقی کے مرتکب ہوتے نظر آرہے ہوں تو یہ امر اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم تعلیم کی صحیح غرض وغایت کو پورا کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ بدقسمتی سے اکثر والدین بچوں کو بااخلاق انسان بنانے میں ناکام ہیں۔ بچوں کے اخلاق و کردار میں تنزل آرہا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ والدین بچوں کی چھوٹی چھوٹی بداخلاقیوں کو نظر انداز کردیتے ہیں اور اگر کبھی انہیں سمجھانے کا خیال آبھی جائے تو بچے اپنی ضد اور ہٹ دھرمی سے اصلاح کا کوئی اثر قبول نہیں کرتے۔ بچے جب گلی محلے میں ہر چھوٹے بڑے کی بے عزتی ہوتے دیکھتے ہیں اور خود اپنے والدین کو بھی باہم لڑتے جھگڑتے اور گالم گلوچ کرتے دیکھتے ہیں تو انہیں بھی ایسی حرکتیں کرنے کا شوق چڑھ آتا ہے۔
ہم اپنے بچوں کو گلی کوچوں اور بازاروں میں چلنے پھرنے کی تمیز اور آداب سکھانے میں بھی کامیاب نہیں ہوسکے۔ ہمارے لاڈلے گلی کوچوں میں کس بے تکلفی سے گالیاں بکتے دکھائی دیتے ہیں۔ اس کا اندازہ یوں لگایا جاسکتا ہے کہ باتوں میں گالی گلوچ کا استعمال معمول بن گیا ہے۔
بات بات پر گالی دینا گویا یہ بھی ایک فیشن بن گیا ہے۔ بچے تو ایک طرف رہے بڑے بھی گالی گلوچ تفریحاً کرتے ہیں۔ بات کا آغاز بھی گالی اور اختتام بھی گالی سے ہوتا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ ہمارے سکولوں میں بھی بچوں کی حرکات و سکنات میں بداخلاقی کا عنصر بڑھتا جارہا ہے۔ جماعت میں شرارتیں کرنا اور استاد سے گستاخی سے پیش آنے کا مرض عام ہے۔ ساتھیوں سے لڑنا‘ جھگڑنا‘ بے تکلفی سے جھوٹ بولنا اور درو دیواروں پر فحش باتیں لکھنا عام مشغلے ہیں۔
والدین گھر میںمعلم کا مقام رکھتے ہیں:گھر‘ گلی اور سکول میں بچوں کی بداخلاقیوں کے عام مظاہرے اس امر کا ثبوت ہیں کہ ہماری تعلیم‘ اخلاق اور کردار سنوارنے میں ناکام رہی ہے۔ والدین گھر میں تعلیم معلم کا مقام رکھتے ہیں۔ اگر وہ اخلاق و کردار کو قابل قدر تصور کرتے ہوں تو وہ بچوں کی تربیت کے اس اہم پہلو پر خصوصی توجہ دیں لیکن افسوسناک صورت یہ ہے کہ ہمارے عام گھروں میں بھی اخلاقی قدروں کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی جاتی۔ اکثر والدین بچے کی جسمانی صحت کیلئے تو ہر ممکن کوشش کرتے ہیں مگر ان کی اخلاقی بہتری سے غفلت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔علاوہ ازیں بعض والدین یہ سمجھتے ہیں کہ ان کی ذاتی بداخلاقیاں بچوں پر اثر نہیں کرتیں حالانکہ یہ ان کی غلط فہمی ہے والدین کا کردار بچوں پر اثرانداز ہوتا ہے یہ بات والدین کو ہمیشہ ذہن نشین رکھنی چاہیے۔
بچوںکو مارنے کے نقصانات:بچوں کو مارنے پیٹنے سے وہ بہت سی بری عادات کا شکار ہوجاتے ہیں علامہ ابن خلدون رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں جسمانی سزا سے بچے کو جھوٹ کی عادت پڑتی ہے اور وہ سزا سے بچنے کیلئے مکرو فریب اور چالاکی و عیاری کو کام میں لاتا ہے۔ یہ بری عادت روز بروز بڑھتی چلی جاتی ہے اور بچے کی زندگی کو تباہ کردیتی ہیں۔ ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ والدین چھوٹے بچوں پر تشدد نہ کریں کیونکہ اس سے ان کی طبیعت بجھ جاتی ہے اور زندگی سے خوشی و امنگ ختم ہوجاتی ہے۔ سزا سے بچے کی ذہنی نشوونما رک جاتی ہے اور حصول علم کا جذبہ ٹھنڈا پڑجاتا ہے اس کی طبیعت میں غیرت‘ حمیت اور مدافعت کے جذبات ختم ہوجاتے ہیں غرضیکہ انسانیت کا کوئی جوہر بچے میں باقی نہیں رہتا۔اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بچوں کو مارا نہ جائے تو پھر آخر کیسے ان کی بری عادات کو ختم کیا جائے؟ امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اس سلسلے میں تدریجی عمل اختیار کیا جائے وہ جن درجات کا تعین کرتے ہیں وہ مندرجہ ذیل ہیں: اگر کوئی بچہ برا فعل کرے تو پہلے پہل چشم پوشی سے کام لیا جائے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ فعل اس سے لاشعوری طور پر سرزد ہوگیا ہو۔٭ اگر بچہ پھر وہی فعل کرے تو اشاروں میں بالواسطہ سمجھادینا چاہیے ہوسکتا ہے کہ وہ اپنے فعل پر نادم ہوجائے۔ ٭ اگر وہ بار بار اسی غلطی کا ارتکاب کرے تو اسے علیحدگی میں یہ بات سمجھائی جائے کہ اس کا یہ فعل ناپسندیدہ ہے اور اسے ترک کرنے میں اس کی بہتری ہے۔ اگر وہ پھر بھی اپنے فعل سے باز نہیں آتا تو اس کے ساتھیوں کے سامنے اس کی نشاندہی کی جائے اور اسے تنبیہہ کی جائے اگر اس کے باوجود بھی راہ راست پر نہیں آتا تو اسے زیادہ سے زیادہ تین چھڑیاں لگائی جائیں۔
بچوں کو محض نصیحت کردینا ہی کافی نہیں ہوتا بلکہ ضروری ہے کہ والدین خود اخلاق و اعمال کے بلند درجے پر فائز ہوں بچوں کو جھوٹ‘ چغلی‘ حسد‘ بغض‘ دھوکہ فریب کی عادت اس لیے پڑتی ہے کہ انہوں نے والدین کو ایسا کرتے ہوئے دیکھا ہے اور ایک مرتبہ نہیں۔۔۔۔ بکثرت دیکھا ہے والدین بچوں کو ان عادات سے کیسے روک سکتے ہیں جبکہ خود وہ بچوں کے سامنے ایسا کرتے ہیں۔
بچے ساری زندگی والدین کو اسلام کی تعلیم کے بخیے ادھیڑتے ہوئے دیکھتے ہیں اور خود بھی ساری زندگی ان کے نقش قدم پر چلتے ہیں والدین خود کامل ایمان والے ہوں گے تو بچے بھی ولی پیدا ہوں گے تاریخ گواہ ہے کہ نیک اور متقی والدین کے گھر ہی اولیاء نے جنم لیا ہے یہ اور بات ہے کہ اللہ کسی فاسق وفاجر کے بیٹے کو ہدایت سے نواز دے مگر یہ اللہ کی سنت نہیں ہے قدرت ہے جس کے تحت وہ ایسے معجزے دکھاتا ہے۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ بچوں کی تربیت والدین کی نہایت اہم ذمہ داری ہے والدین پر لازم ہے کہ بہترین تربیت کے ذریعے بچوں کو کامل مومن اور معاشرے کا مفیدر کن بنائیں۔ ایک بات یادرکھیں کہ اگر کوئی والدین خود دین پر عمل نہیں کرتے خود گنہگار ہیں تو ان کے بچے بھی ایسے ہی ہوں گے اور اس سے آئندہ نسلیں تک تباہ ہوجائیں گی اور اس کا وبال انہی والدین پر ہوگا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں