Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔ --

خوشگوار زندگی کیلئے ورزش ضروری ہے

ماہنامہ عبقری - اگست 2012

مرد ہو یا عورت ہلکی پھلکی ورزش کو بہرحال زندگی کا معمول بنالینا صحت و تندرستی کا ایک اہم ترین تقاضا ہے۔ ورزش کیلئے کون  سا وقت آپ کیلئے موزوں رہے گا اس کا انحصار آپ کی گھریلو اور پیشہ وارانہ مصروفیات پر ہے۔ ویسے ناشتہ سے قبل صبح کا وقت اس کیلئے بہترین قرار دیا گیا ہے۔ اگر شدید مصروفیات حائل ہوں تو پھر کھانے سے قبل شام کا وقت بھی اس کیلئے مناسب رہے گا۔ ورزش کیلئے جو وقت طے ہے اس کو معمولات زندگی میں جگہ دینا ضروری ہے ورنہ حادثات یا اتفاقات کے طور پر کی جانے والی کسی بھی قسم کی ورزش جسم پر بہت زیادہ اثر انداز نہیں ہوتی۔ اب آپ کس قسم کی ورزش اپنے لیے موزوں سمجھتے ہیں یا سمجھتی ہیں اس کا انتخاب آپ کی اپنی جسمانی ساخت عمر اور روزمرہ کی مصروفیات کے مطابق ہی ہوگا۔ بہرحال تیز چلنا‘ پیراکی‘ فٹ بال‘ والی بال‘ رسی کودنا یا اس طرح کے کسی کھیل کود سے وابستگی جس میں جسم کے اعضاء و جوارح حرکت میں آتے ہیں‘ خون کا دوران تیز ہوتا ہو اور ساتھ ہی ناکارہ اور فاسد مادے جسم سے پسینہ کی شکل میں خارج ہوتے ہوں تو پھر سمجھئے کہ ورزش کے مقاصد پورے ہوگئے اور یہ چیز معمول بن گئی تو پھر انشاء اللہ آپ بہت سے امراض سے نجات حاصل کرلیں گے۔
ورزش نہ کرنے کے نقصانات :ورزش کو معمول نہ بنالینے کے بہت سے نقصانات ہیں مثلاً بلند فشار خون‘ موٹاپا‘ جوڑوں کا درد‘ دل کی دھڑکن میں بے ترتیبی‘ بے خوابی‘ بدہضمی و تیزابیت وغیرہ وغیرہ… یہ بیماریاں بظاہر الگ ہیں لیکن داخلی طور پر ایک دوسرے سے مربو ط ہیں۔ مثلاً فشار خون کا دل کی بے ہنگام حرکت سے‘ جوڑوں کے درد کا موٹاپے سے‘ بدہضمی کا بے خوابی سے اسی طرح دیگر اور امراض ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ پیوست ہیں اور ایک دوسرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ عورتیں عام طورپر ورزش کو مردوں کا ہی استحقاق سمجھتی ہیں اور اپنے حق میں گھریلو کام کاج کو ہی ورزش کا متبادل سمجھتی ہیں جو درست نہیں ہے۔ گھریلو کام اور معمول کے مطابق ورزش ایک دوسرے کے قائم مقام نہیںہیں۔ گھریلو کام کاج کو ورزش کا ہم معنی سمجھ لینا ورزش کی ذمہ داری سے دانستہ فرار ہے اور اسے مردوں کی ذات سے منسوب کردینا ایک غلط فہمی ہے۔ ورنہ عورتوں کے دل کا دورہ پڑنے کے بیشتر اسباب وہی ہیں جو مردوں میں ہوتے ہیں۔ مثلاً موٹاپا‘ ہائی بلڈپریشر‘ ذیابیطس‘ کولیسٹرول کی زیادتی اور عارضہ قلب کا خاندانی پس منظر وغیرہ۔ عورتوں کا موٹاپا اس مرض کا ہی نہیں بلکہ سب متذکرہ بالا امراض کا ایک اہم سبب ہے۔ مناسب اور متوازن غذا جس میں چاول‘ چربی (گوشت)‘ چینی اور چکنائی (گھی‘ تیل وغیرہ) کا کم سے کم استعمال ہو تو ایسی غذائیں تندرستی کی برقراری میں کلیدی رول ادا کرتی ہیں۔ احتیاط اور علاج‘ پرہیز اور ورزش ایک دوسرے کیلئے معاون و مددگار بنیں تو پھر تاثیر دگنی ہوگی اور اگر یہ دو چیزیں ایک دوسرے کی مخالف سمت میں چل رہی ہیں تو بے چارہ جسم تختہ مشق بن جائے گا۔ اگر آپ روزانہ ورزش کی عادت ڈالنا چاہتے ہیں تو اس کیلئے خود کو تیار کرنا پڑے گا یا دوسرے معنوں میں اپنے آپ کو قائم کرنا پڑے گا۔ اس کی اہمیت اور افادیت بتانے کی ضرورت نہیں ہے۔ حفظان  صحت کے اصول اور طبی نقطہ نظر سے ورزش کے فوائد اپنی جگہ اس کو محض مان لینے یا اس کے قائم ہوجانے سے کوئی بات نہیں بنے گی‘ اس کیلئے آپ کا ارادہ عمل ضروری ہے اور یہی وہ چیز ہے جس کا نعم البدل یا متبادل صرف اور صرف آپ کی اپنی ذات کے علاوہ کہیں اور نہیں ہے۔
انسان کو پختگی پیدا کرنی چاہیے:ارادہ و عمل کی پختگی کو مستحکم کرنے نیز خیالات کو پختہ تر اور مرکوز کرنے کیلئے آپ کو سوچنا ہوگا۔ اپنے آپ کو ہمیشہ قائل کرتے رہنا ہوگا۔ یہ کوئی وقتی کام نہیں ہے بلکہ اسے معمولات زندگی میں جگہ پانا ہے تو پھراس کی مسلسل ومتواتر آبیاری بھی اپنی سوچ وفکر کے ذریعہ کرنی ضروری ہے۔ آپ کو خیال کرنا پڑے گا اور قائل ہونا پڑے گا کہ ورزش نہ کرنے کے نتیجہ میں آپ کس قدر خسارے میں ہیں۔ ٭ آپ کا وزن بڑھتا جارہا ہے ٭ جسم بے ڈول اور بوجھل ٭ بیٹھ کراٹھنے میں پھرتی نہیں رہی ٭ ذرا سی محنت یا دوڑ دھوپ نظام تنفس کو درہم برہم کردیتی ہے ۔
یہ اور اس طرح کے نقصانات کی فہرست بنائیں اور اپنے دل و دماغ کو اس بات کا قائل کریں کہ اگر ورزش کو معمولات زندگی میں جگہ نہ دی جائے اور متوازن غذا پر توجہ نہ کی جائے گی تو پھر ان نقصانات کی فہرست طویل تر ہوتی جائے گی۔
ٹھیک اسی طرح ورزش کے فوائد پر مشتمل فہرست نہ صرف مرتب کریں بلکہ اسے پیش نظر بھی رکھیں اور وقتاً فوقتاً اس کی تجدید بھی کریں تاکہ سستی‘ کاہلی اور اضمحلال کے اثرات آپ کے ورزش کے معمولات پر نہ پڑیں۔ یہ بات ہمیشہ پیش نظر رکھنی چاہیے کہ وقت کی پابندی کے ساتھ کسی عمل کو تواتر سے انجام دینے کیلئے غیرمعمولی قوت ارادی کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی بھی قسم کی ورزش آپ سے وقت کی پابندی اور تواتر کا مطالبہ کرتی ہے۔ مختصراً یہ کہ اس کے فوائد پر نظر رکھیں اور خود کلامی کے ذریعہ اپنے نفس کومخاطب کرکے کچھ اس طرح اسے قائل کرنے کی سعی کرتے رہیں کہ: ٭ جسمانی ورزش سے جسم میں پھرتی اور چستی پیدا ہوگی اور بوجھل پن دور ہوگا‘ نیز وزن اور جسمانی ساخت مناسب اور متناسب رہے گی۔ ٭ موت اور حیات‘ صحت اور بیماری اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ضرور ہے لیکن ہم عقل سلیم کو استعمال کرنے کے بھی تو مکلف ہیں اور اسی کا تقاضا ہے کہ ورزش کے ذریعہ صحت جیسی عظیم نعمت سے استفادہ کیا جاسکتا ہے اور زندگی کو بے مزہ کرنے والی بیماریوں جیسے ذیابیطس‘ موٹاپا‘ تنفس کی خرابیاں اور اعصابی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے یا کم از کم ان کی آمد سے پہلے ہی ان کو ٹالا جاسکتا ہے۔ ٭دوران خون کا نظام درست ہوگا‘ غذا اچھی طرح ہضم ہوگی‘ طبیعت ہلکی پھلکی اور ہشاش بشاش ہوجائے گی‘ چہرے کو غازے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ ٭ تناؤ اور بے خوابی کی زد میں آئی ہوئی زندگیاں بیماریوں کی آماجگاہ بن جاتی ہیں۔ ہلکی سی ورزش راحت اور سکون کا باعث ہوتی ہے۔ بے خوابی کی شکایت میں تو یہ اکسیر کا حکم رکھتی ہے۔ ٭ بیماریوں کی تکلیف تو اپنی جگہ ڈاکٹروں کی فیس اور دواؤں کا بل مریض تو مریض‘ اس کے قریبی اعزاو اقربا تک کو بھی تیماردار سے بیمار بنا دیتا ہے۔ اگر تھوڑی سی محنت معمول کے مطابق ورزش اور متناسب غذا کے ذریعہ ان الجھنوں سے بچاجاسکتا ہے تو پھر یہ کوئی گھاٹے کاسودا نہیں ہے۔
ورزش کا صحت سے تعلق:مردوں اور عورتوں کو یہ احساس رکھنا چاہیے کہ خوشگوار ازدواجی زندگی اور معاشرتی امور کا صحت سے بڑا گہرا تعلق  ہے۔  بیمار جسم بحالت مجبوری مسکراہٹ کو چہرے پر پھیلا سکتا ہے لیکن دل و دماغ کی گہرائیوں سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ ایسی صورت میں ہنسنا بھی ایک تکلیف وہ عمل بن جاتا ہے۔ ایک عقل مند ماں نے رخصتی کے وقت اپنی بیٹی کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا: ’’بیٹی! جب تم ناشتہ تیار کرکے دسترخوان پرکھانے کیلئے بیٹھو تو تمہارے بال بکھرے ہوئے نہیں ہونے چاہئیں۔ اگرچہ یہ نصیحت ایک الگ مضمون کی متقاضی ہے لیکن اس سے مراد یہی ہے کہ تمہاری عائلی ذمہ داریاں کہیں تمہیں اپنی ذات سے غافل نہ کردیں۔ اس بات میں کوئی اختلاف نہیں ہوسکتا کہ صحت ایک بڑی دولت ہے اور ایک عظیم نعمت بھی ہے نہ ہی اسے ضائع کرنا چاہیے اور نہ ہی اس کی ناقدری کرنی چاہیے

Ubqari Magazine Rated 5 / 5 based on 054 reviews.