پہلا واقعہ ہمارے رشتہ دارکا ہے ان کی بیٹی کے ساتھ آج سے تقریباً 35یا 40سال پہلے پیش آیا تھا وہ آج بھی حیات ہیں۔ وہ سب لاہور میں رہتے ہیں۔ ان کی بیٹی کو جنات اٹھا کر لے گئے تھے اور اس کی جگہ ایک ہم شکل کو چھوڑ گئے تھے۔ اس بات کا پتہ کبھی بھی نہ چلتا اگر جنات خود نہ بتاتے کیونکہ واللہ اعلم ان کے درمیان کیا واقعہ پیش آیا کہ ان کی والدہ کو آواز آئی کہ ہم اپنی بیٹی لے کر جارہے ہیں اور تمہاری بیٹی چھوڑ کے جارہے ہیں۔ پھر وہ جاتے ہوئے نشانی کے طور پر ان کے گھر کی اوپر والی دیوار گرا گئے تھے۔ ہمارے گھروں میں پنجابی بولی جاتی ہے لیکن جب سے وہ واپس آئی ہے‘ وہ صرف اردو بولتی ہے‘ پنجابی سمجھتی ہے لیکن بول نہیں سکتی اور ان کی یادداشت میں کچھ باتیں نہیں ہے‘ مثلاً رشتہ داروں کی شادی میں شرکت حالانکہ ان کی تصویریں بھی ہیں لیکن ان کو یاد نہیں آتا ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب وہ مجھے اٹھا کر لے گئے تو میں بہت زیادہ روتی تھی تو ایک دن مجھے انہوں نے ایک شربت پینے کو دیا بس اس کے پینے کے بعد میری پچھلی یادداشت ختم ہوگئی اور یہ بات بھی بتائی کہ عید وغیرہ پر ہم لوگ انارکلی بازار میں شاپنگ کرنے بھی آتے تھے‘ آگے اللہ تعالیٰ بہتر جانتے ہیں۔
دوسرا واقعہ میری بیٹی کے ساتھ پچھلے سال مئی کے مہینہ میں پیش آیا۔ میں اور میری بیوی سوئے ہوئے تھے۔ میرے تینوں بچے بڑی بیٹی‘ چھوٹا بیٹا اور اس سے چھوٹی بیٹی علیحدہ کمرے میں سوئے ہوئے تھے۔ رات کے دو بجے کے قریب میری سب سے چھوٹی بیٹی اپنی ماں کے قریب آکر لیٹ گئی‘ تھوڑی دیر بعد ماں نے کروٹ بدلی اور بیٹی کو دیکھ کر پوچھا خیریت تو ہے؟ بیٹی نے ماں کو بتایا کہ بڑی بہن کمرے میں نہیں ہے۔ ماں اٹھی اور کمرہ چیک کیا‘ کمرے کا دروازہ بند تھا اور بیٹی جہاں لیٹتی ہے وہاں دو تکیے رکھ کر اوپر چادر اوڑھا دی گئی تھی کہ پہلی نظر میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ کوئی لیٹا ہوا ہے۔ اس نے مجھے نہیں اٹھایا بلکہ پہلے خود بقول اس کے کنڈی کھول کر دروازہ کھولا اور باہر گئی اور اوپر چھت کی سیڑھیوں تک دیکھ کر آئی لیکن اسے بیٹی نظر نہیں آئی تو وہ پریشانی کی حالت میں اپنے کمرے میں آئی اور مجھے اٹھایا اور روتے ہوئے بتایا کہ بیٹی کمرہ میں نہیں ہے میں خود بھی پریشان ہوا لیکن اسے دلاسہ دیا کہ یہیں ہوگی اس نے کہاں جانا ہے؟ میں نے سب سے پہلے باہر کا دروازہ چیک کیا کنڈیاں دونوں لگی ہوئی تھیں لیکن ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے کھولنے کی کوشش کی گئی ہو۔ میں نے سیڑھی کی لائٹ جلائی اور اوپر گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ آخر والی سیڑھی پر بیٹی بیہوش پڑی ہے میں اسے اٹھا کر نیچے لایا لیکن وہ اپنے حواس میں نہیں تھی‘ میں نے اپنے قاری صاحب (مسجد کے امام) کو فون کیا لیکن فون نہ اٹھایا گیا پھر میں نے اپنے بیٹے کو ان کے پاس بھیجا وہ خود تو نہ آئے لیکن انہوں نے مجھے فون کیا اور کہا کہ بیٹی کے کان کے ساتھ فون لگائیں میں نے کان کے ساتھ فون لگایا تو وہ کافی دیر پڑھائی کرتے رہے۔ بچی کی حالت قدرے بہتر ہوئی لیکن وہ یہ بات دہرا رہی تھی کہ اذان کب ہوگی اس کی والدہ نے پوچھا کہ اذان کا کیوں پوچھ رہی ہو تو کہنے لگی کہ میں نے واپس جانا ہے۔
اذان ہوئی تو بچی سوگئی اور جب اٹھی تو اس کو کچھ پتہ نہیں تھا کہ وہ کہاں تھی اور کہاں سے اُسے لایا گیا اور وہ کیا کہہ رہی تھی۔ ہاں وہ یہ بتارہی تھی کہ رات کو جب وہ نفل پڑھنے لگی تو اس نے یہ آواز سنی کہ بات سنو اور اس کے بعد اسے کچھ خبر نہیں اور مجھے ایسا لگتا ہے کہ میں نے رات کو کوفتے کھائے ہیں کوئی مجھے کوفتے کھانے کو کہہ رہا تھا۔ اس دن ہم لوگوں نے کوفتے بنائے تھے لیکن رات کے کھانے میں سارا سالن اور روٹی ختم ہوگئے تھے۔ دوپہر کے وقت اس کے موبائل فون کی تلاش میں میری بیوی اوپر گئی تو جہاں وہ بے ہوش ملی تھی وہاں بستروں والے میز کے نیچے ہمارے ہی گھر کی ٹرے میں سالن والا برتن جس میں کوفتوں کا سالن موجود تھا اور ایک دستر خوان میں لپٹی ہوئی روٹی جس کا کچھ حصہ کھایا ہوا تھا اور ایک عدد بڑی چاکلیٹ موجود تھی۔ پھر قاری صاحب کو وہ ٹرے دکھائی تو انہوں نے کچھ پڑھا اور کہا یہ چیزیں ضائع کردیں اور چند بزرگ مؤکل بلائے ان سے بھی بیٹی کا علاج کروایا۔ انہوں نے ایک تعویذ بیٹی کے بازو پر باندھنے کیلئے دیا اور ایک تعویذ گھر میں لٹکانے کو دیا بیٹی اب بہتر ہے۔ دوبارہ اللہ کا شکر ہے کہ اس قسم کا واقعہ پیش نہیں آیا ہے۔ محترم حکیم صاحب میرا نام شائع مت کیجئے گا۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں