چاروں طرف ہوکا عالم تھا زمین و آسمان سے وحشت برستی تھی‘ مغرب سے کالی گھٹائیں اٹھیں‘ بادل گرجا ‘ بجلی کڑکی کہ زمین کا سینہ دہل گیا‘ برق بار بار چمکتی تھی اور آنکھوں میں چکاچوند پیدا کررہی تھی طوفانی بارش کا یہ عالم تھا کہ برق پر صاعقہ کا گمان ہوتا تھا۔
پیر کا دن تھا‘ پانچ بجنے میں ابھی پانچ منٹ باقی تھے کہ طوفان اور آندھی نے ہمیں آلیا۔
پاکستان کی سرحد یہاں سے دو میل تھی مگر یہ دومیل ہمارے لیے ہزار میل سے زیادہ تھے۔ چاروں طرف ہزاروں سکھ ہتھیاروں سے مسلح حملہ کرنے کیلئے پرتول رہے تھے قافلہ اور قافلے کے محافظ بہت دور نکل گئے تھے۔ درماندگان زخمی اور ضعیف قافلے کی لکیر پیٹ رہے تھے اس زمرے میں ہم بھی شامل تھے۔
بارش دھواں دھار ہونے لگی‘ خوف و ہراس ہر طرف طاری تھا‘ حلقہ تنگ تر ہوتا چلا جا رہا تھا بارش راستے میں حائل نہ ہو تی تو وہ کبھی کا ہمارا تیاپانچا کرچکے ہوتے۔
یہ لوگ ہمارے اس لیے دشمن تھے کہ ہمارا نظریہ حیات ان سے الگ تھا‘ قرآن ان کے سینے میں خار کی طرح کھٹکتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہ ٹولہ مسلمانوں کے قتل پر ادھار کھائے بیٹھا تھا۔ ان کا ارمان تھا کہ ایک سکھ چار مسلمانوں کو قتل کرے تاکہ مشرقی پنجاب کے مسلمانوں کا صحیح طور پر صفایا ہوسکے۔
بارش تھم گئی بادل چھٹ گیا‘ ہزاروں سکھ شمال کی طرف کماد کے کھیت میں جو ہم سے نصف فرلانگ کے فاصلے پر تھا‘ چھپے ہوئے تھے ان کے ہاتھوں میں برچھے اورتلواریں تھیں۔ وہ اس گھات میں تھے کہ موقع ملتے ہی پنجاب اور درماندہ مسلمانوں پر ٹوٹ پڑیں۔
میں اور میری مونس حیات موت کی گھڑیاں گن رہے تھے ہم دونوں ہرثلاثہ کی خستہ فصیل پر بیٹھ گئے‘ مجھے میری اہلیہ نے بصد یاس و حزن کہا کہ اب ہمارا آخری وقت ہے ہمیں چاہیے کہ ہم صدق دل سے توبہ کریں اور کلمہ طیبہ کا ورد کریں میری آنکھوں میں بے اختیار آنسو آگئے میں نے ضبط کرتے ہوئے اس کو حوصلہ دیا اورکہا کہ خدا کا آسرا ہرحال میں کافی ہے۔ گھبرانے سے کچھ فائدہ نہیں‘ مسلمان کو چاہیے کہ انتہائی نازک حالات میں بھی ثابت قدم رہے اور صبرکے دامن کو مضبوطی سے تھامے رکھے۔
میری بیوی نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے کلام پاک میں وہ تاثیر رکھی ہے کہ اگر صحیح طریقے سے ایمان کی روشنی میں زندگی کے انتہائی نازک حالات میں اس کی تلاوت کی جائے تو یقیناً ہوا کا رخ تبدیل ہوسکتا ہے۔
میں کہا کہ تمہارا اس سے کیا مطلب ہے کہنے لگی کہ آپ سورہ فیل کی تلاوت کریں تاکہ اصحاب فیل کی طرح سکھوں کا یہ لشکر تہس نہس ہوجائے میرے دل میں ایک بجلی سی کوندگئی اور میں نے بے ساختہ سورة الفیل کی تلاوت کرنا شروع کردی میری زبان پر ابھی یہ سورت جاری تھی کہ افق مغرب سے پاکستان کا ہوائی جہاز نمودار ہوا اور آن واحد میں اس نے فضاءمیں ایک روشنی کا بم چھوڑا۔ فضا بقعہ نور بن گئی۔ کماد میں سکھ ادھر ادھر پھرتے صاف نظر آرہے تھے ہوائی جہاز کے آتے ہی محافظ دستہ حرکت میں آگیا۔ ٹینک‘ بکتربند گاڑیاں‘ آرمڈ کاریں ادھر ادھر بھاگنے لگیں۔ ابھی چند منٹ بھی نہ گزرنے پائے تھے کہ ٹینک کماد کے کھیتوں پر چڑھ دوڑے ایک بم پھٹا اور دھوئیں سے فضا معمور ہوگئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے کماد کا کھیت صاف ہوگیا۔ نہ کماد باقی رہا نہ سکھوں کا وجود کہیں نظر آیا تھا۔ سینکڑوں مارے گئے اور بیسیوں گرفتار ہوکر تہ تیغ ہوئے جو بھاگے وہ گولی کا نشانہ بنے۔
یہ تھا کلام پاک کا سچا واقعہ جو میں نے بچشم خود دیکھا۔ واقعی قرآن پاک زندہ کتاب ہے۔ اس کے معجزات آج بھی وہی اعجاز رکھتے ہیں جو قرن اولیٰ میں مسلمانوں نے ملاحظہ کیے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں