میری ایک دوست خاتون نے کہا جب وہ میرے مکان داخل ہوئی اس نے کہا کہ میں ابھی سپرمارکیٹ سے آرہی ہوں۔
میں نے کہا: خیریت تو ہے آخر کیا بات ہے؟
بولی: میں نے نوجوان مائوں کو دیکھا کہ ایک کے اوپر ایک گری پڑی تھیں۔ وہ اپنے شیرخوار اور چھوٹے بچوں کیلئے پورے ایک ہفتے کی غذا کے ٹین کے ڈبے خرید رہی تھیں۔
اس نے سانس لینے کیلئے تھوڑی دیر توقف کیا اور غصے سے بھرے ہوئے لہجے میں کہا: آپ کا کیا خیال ہے کہ صرف ٹین کے ڈبے میں بند غذا کو مسلسل ایک ہفتے تک ننھے بچوں کو دینا یا خود ہی کھانا کیا ہے؟ کیا یہ ننھی جانوں پر بڑا ظلم نہیں ہے؟
یقیناً یہ صحت کیلئے بہت پُرخطر ہے۔ میں نے کہا: مجھے ان بدنصیب بچوں پر بہت ترس آتا ہے جو ایسی نادان عورتوں کے پلے پڑے ہوئے ہیں۔
کوئی نہیں ہے‘ جو اِن جوان مائوں کو بتائے کہ ٹین میں بند عرصے سے رکھی ہوئی غذا کس قدر ناقص اور بے جان ہوتی ہے کسی ہنگامی موقع پر بدرجہ مجبوری استعمال کرلیا جائے تو خیر ورنہ جزِ اعظم اور اصل غذا کے طور پر استعمال کرنا صحت کو تباہ کردینے اور جسم کو امراض کیلئے مستعد کردینے کے مترادف ہے۔
بدقسمتی سے عورتیں اشتہاروں سے متاثر ہوکر بازاری غذائیں بچوں کو دینے لگتی ہیں اس میں آسانی بھی ہے لیکن وہ نہیں سمجھتیں کہ ماں کا دودھ چھڑانے کے معاً بعد بچے کی غذا کا مسئلہ جتنا اہم ہوتا ہے اتنا زندگی کے کسی دور میں نہیںہوتا۔
بچوں کو ٹین والی غذا میں بدترین بات یہ ہوتی ہے کہ اس میں غذا کے تحفظ کیلئے سلفرڈائی آکسائیڈ کی آمیزش ہوتی ہے یہ حیاتین ب الف کیلئے سخت تباہ کن ہے۔ حیاتین ب الف اعصاب کے افعال کو درست رکھنے کیلئے لازمی ہے۔ مزیدبرآں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ سلفر ڈائی آکسائیڈ سے حیوانات کے بچوں کی بالیدگی کی رفتار سست ہوجاتی ہے اور دوسری تحقیقات سے ظاہر ہوا ہے کہ ٹین کی غذا اگر دیر تک رکھی رہ جائے تو زہریلی ہوجاتی ہے۔
پھر ایک بات یہ ہے کہ ایسی غذا سے پیدائشی اور تولیدی خرابیاں ظہور میں آسکتی ہیں ان نقصانات کے پیش نظر میں سوچنے لگتی ہوں کہ ہماری آئندہ نسل پروان چڑھنے سے پہلے ہی روگی ہوا کرے گی۔
ایک دوسری خطرناک بات جو بہت سی ٹین والی غذائوں میں پائی جاتی ہے یہ ہے کہ ان میں شکر ہوتی ہے شکر جیسا کہ ہم سب بخوبی واقف ہیں ہر قسم کی قدرتی صحت کی دشمن ہے اور صرف شہد ہی ایک ایسی چیز ہے جو بچوں کوشکر کے طور پر دی جاسکتی ہے۔
اس تمام گفتگو سے واضح ہوتا ہے کہ بچے کی غذا صحت کے اعتبار سے اتنی ہی اہمیت رکھتی ہے جتنی خود ہماری اپنی غذا بلکہ اس سے بھی زیادہ....
مختصر یہ ہے کہ جیسے ہی بچہ ٹھوس غذا لینے کے قابل ہوتو اس کو وہی اچھی طرح انتخاب کی ہوئی غذا جو آپ خود کھاتے ہیں‘ خوب مسل کر اور اچھی طرح باریک کرکے دیں لیکن مجھ کو ابتدا سے گفتگو کی اجازت دیجئے۔
میں اس بات پر پختہ اور کامل یقین رکھتی ہوں کہ دماغی اور جسمانی دونوں اعتبار سے والدین کے اثرات نہایت اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ اس یقین میں کوئی نئی بات نہیں ہے کہ بچے کی پیدائش سے پہلے ہی اپنے خیالات سے بچے کو متاثر کیا جاسکتا ہے قدیم یونانی اس حقیقت کو تسلیم کرتے تھے اور متوقع ماں کے سامنے خوب صورت مجسمے رکھتے تھے تاکہ بچہ خوبصورت پیدا ہو۔
میں خود اپنے بچوں کی پیدائش سے پہلے اس بات کا بڑا خیال رکھتی تھی کہ ایسی کتابیں نہ پڑھوں جو تشدد اور گندی تہذیب پر مبنی ہوں جس کا نتیجہ یہ ہے کہ میں نے بہت خوبصورت اور تندرست بچوں کو جنم دیا مزیدبرآں حمل کے زمانے میں بڑی محتاط رہتی تھی اور دودھ پلانے کے زمانے میں اپنی غذا کا خاص خیال رکھتی تھی۔
ہر شخص جانتا ہے کہ وہ عورت جو سگریٹ یا شراب پیتی ہے جنین کو مستقل نقصان پہنچاتی ہے میں سمجھتی ہوں کہ اس سے زیادہ زیادتی کوئی اور نہیں ہوسکتی کہ دنیا میں ایک ایسے بچے کو لایا جائے جس کی صحت پیدائش سے پہلے ہی مجروح ہوچکی ہو۔
چھاتی کا دودھ بلاشبہ بچے کو مضبوط اور صحت مند بنانے کا قدرتی طریقہ ہے میں سہم جاتی ہوں جب یہ سنتی ہوں کہ بعض ہسپتالوں میں نرسیں اپنی سہولت کے مدنظر ممکن حد تک جلد سے جلد بچے کو بوتلوں کا دودھ پلانے لگتی ہیں اور یہ بھی بہت ضروری ہے کہ ماں اس بات کا خیال رکھے کہ وہ کیا کھاتی ہے کیونکہ اس کی غذا دودھ کے ذریعہ سے بچے کو پہنچتی ہے ہرماں کو یہ بات اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ بچے کو پانی پینے کی بھی ضرورت ہوتی‘ کیونکہ دودھ بہت گاڑھا اور بچے کا منہ بھردینے والا ہوتا ہے بعض شفاخانوں میں اب بھی یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ اس میں تھوڑی شکر ملا دینی چاہیے یہ بالکل غلط بات ہے بلکہ شکر کے بجائے تھوڑا سا شہد ملادینا بہتر ہے اس سے بچے کو خالص اور اچھی چیز ملے گی۔ یہ فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ سفید شکر (چینی) قدرتی صحت کی دشمن ہے۔
ذاتی طور پر میں ایسا اہتمام کرتی ہوں اور اس کا صرفہ بھی برداشت کرسکتی ہوں کہ بچے کو اچھے چشموں کا معدنی پانی پلایا جائے اگر پاکستان میں معدنی پانی تلاش کرکے اسے پیک کردیا جائے تو یہ پاکستان کے بچوں کی بڑی خدمت ہوگی بلکہ اس پانی کو برآمد بھی تو کیا جاسکتا ہے۔
شہد ایک ایسی چیز ہے جو ہر بچے کو رات کے وقت دی جانی چاہیے کیونکہ یہ بڑے بچوں کو بول بستری سے بالکل باز رکھتا ہے۔ آرام وسکون پہنچاتا اور گہری نیند لاتا ہے۔
سردی میں چھوٹے بچوں کے سینہ میں جب خر خر کی آواز آتی ہے وہ بلغم خارج نہیں کرسکتے اس لیے ان کو تکلیف ہوتی ہے شہد اس کو دور کرتا ہے۔ اگر شیرخوار بچوں کو یہ متواتر استعمال کرایا جائے تو اس سے بچہ طاقت ور اور موٹا تازہ ہوجاتا ہے۔
بچے کو ہڈی کا گودا بھی دینا چاہیے بہت سے بچوںکو گائے کے دودھ سے بھی کیلشیم مل سکتا ہے لیکن اس میں ایک قباحت یہ ہے کہ مشکل سے ہضم ہوتا ہے۔
بچوں کو قدرتاً سبزی ترکاری کی ضرورت ہوتی ہے لیکن سبزی اپنے باغیچے کی ہوتو کیا کہنے.... بازار کی سبزی تروتازہ نہیں ہوتی اور اس پر کیمیائی چھڑکائو ہونے کا بھی احتمال ہوتا ہے۔ ایک بات یہ بھی ہے کہ قدرتی غذا حیاتین کے ضمیموں کے بغیر میسر نہیں آسکتی۔
خیال رکھیے کہ بچوں کو ہرشے سے زیادہ پیارو محبت کی ضرورت ہوتی ہے لیکن اس کیلئے علم و سلیقہ بھی درکار ہوتا ہے ورنہ بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں