فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کا پردہ پوشی فرمانا
حضرتشعبی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوکر بیان کیا کہ میری ایک بیٹی تھی میں نے زمانہ جاہلیت میں اسے زندہ درگور کردیا تھا مگر مرنے سے پہلے اسے قبر سے نکال لایا اور اس نے ہمارے ساتھ زمانہ اسلامی پالیا اور اسلام لے آئی۔ جب وہ اسلام لے آئی تو اس نے ایک ایسے گناہ کا ارتکاب کیا جس سے اس پر حدود اللہ عائد ہوتی تھی۔ اس لڑکی نے چھری اٹھائی تاکہ اپنے آپ کو ذبح کردے اتنے میں ہم نے اس کو پکڑلیا اور وہ اپنی گردن کی بعض رگیں تراش بھی چکی تھی ہم لوگوں نے اس کا علاج کیایہاں تک کہ وہ اچھی ہوگئی اس کے بعد پھر وہ توبہ کی طرف متوجہ ہوئی اور بڑی اچھی توبہ کی جب قوم میں سے اس کا رشتہ آیا تو میں نے ان کو اس کی وہ حالت جس پر وہ (پہلے) تھی بتادی یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کیا جس چیز کی اللہ پاک نے پردہ پوشی کی ہے تو اس کے ظاہر کرنے کا قصد کرتا ہے؟ خدا کی قسم! اگر تو نے کسی شخص سے بھی اس کی حالت کا اظہار کیا تو میں تجھے وہ سزا دوں گا جو تمام شہر والوں کیلئے باعث عبرت ہوجائے.... جا اُس کا نکاح کر جس طرح کہ ایک پاکدامن مسلمان عورت کا نکاح کیا جاتا ہے۔
صحابی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاں مسلمان کا مقام
حضرت بلال بن سعید اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ کے پاس لکھا کہ تم میرے پاس دمشق کے فاسق لوگوں کی فہرست بھیجو‘ حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ نے فرمایا مجھے اور دمشق کے فاسق لوگوں سے کیا واسطہ؟ میں انہیں کس طرح پہچانوں کہ یہ فاسق ہیں؟ حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ کے بیٹے بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ میں ان فاسقوں کو لکھے دیتا ہوں چنانچہ بیٹے نے فاسقوں کے نام لکھے‘ حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ نے فرمایا تجھے کہاں سے یہ معلوم ہوا کہ یہ فاسق ہیں؟ تجھے ان فاسقوں کا جبھی علم ہوا کہ تو بھی انہی میں سے ہے (نام لکھنے میں) اپنے نفس کے ساتھ ابتدا کر! اور حضرت ابوالدرداءرضی اللہ عنہ نے ان کے نام حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس روانہ نہیں فرمائے۔
پردہ دری کا لحاظ
حضرت شعبی کی روایت میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مکان میں تھے اور ان کے ساتھ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیٹھے ہوئے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بُو محسوس کی تو فرمایا کہ اس بدبو اٹھانے والے آدمی کو میں حکم دیتا ہوں کہ کھڑا ہو اور وضو کرے تو حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اے امیرالمومنین! کیا ساری قوم وضو کرے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا اے جریر!(رضی اللہ عنہ) اللہ تجھ پر رحم کرے تو زمانہ جاہلیت میں بھی بہترین سردار تھا اور زمانہ اسلام میں بھی بہترین سردار ہے؟ (اخراج ریاح میں ہر شخص مبتلا ہے اور ایک کے اٹھنے سے اس کی پردہ دری ہوتی ہے اس اشارہ کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ سمجھ گئے اور حضرت جریر رضی اللہ عنہ کی تعریف کی اور دعا دی۔)
چوری کی سزا میں احساس امت
حضرت ابوماجد رضی اللہ عنہ حنفی سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی اپنے بھتیجے کو لایا اور وہ بھتیجا مست تھا اور اس نے کہا کہ میں نے اس کو مست پایا ہے۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس کو ہلائو اور جھنجھوڑو اور اس کے منہ کی بو سونگھو چنانچہ لوگوں نے اسے ہلایا اور جھنجھوڑا اور اس کے منہ کی بو سونگھی تو شراب کی بو پائی۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسے جیل میں رکھنے کا حکم دیا پھر اسے اگلے دن نکالا پھر آپ نے کوڑے کے متعلق حکم دیا اور اس کی نوک کی گرہ کوٹی گئی یہاں تک کہ وہ کوڑا ہلکے چابک کی طرح ہوگیا اس کے بعد جلاد سے فرمایا مار! اور اپنے ہاتھ کو زیادہ اونچا نہ کر اور ہر عضو کو اس کا حق دے اس کو حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بہت سخت مار نہ لگوائی اور اس کو واپس کیا ابو ماجد سے پوچھا گیا کہ مبرح کون سی مار کو کہتے ہیں انہوں نے کہا کہ امراءکی مار کو کہتے ہیں ان سے پوچھا گیا کہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے جو فرمایا تھا ”اِرجَع یَدَکَ“ اس کا کیا مطلب ہے؟ فرمایا ہاتھ اتنا اونچا کرکے نہ مارے کہ مارنے والے کی بغلیں ظاہر ہوں۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ حد قبا اور پاجامہ پہنے ہوئے پر لگائی گئی تھی اس کے بعد حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا خدا کی قسم! اس یتیم کا یہ والی بُرا ہے تو نے نہ اسے تمیز دی اور نہ اچھی تمیز سکھائی اور نہ تو نے اس کی رسوا کن بات کی پردہ پوشی کی۔
اس کے بعد حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا اللہ تعالیٰ مغفرت کرنے والا ہے اور مغفرت کو دوست رکھتا ہے اور کسی حاکم کیلئے لائق نہیں کہ جس کے پاس حد کا کوئی معاملہ لایا جائے اور وہ اس حد کے قائم کرنے سے درگزر کرے اس کے بعد حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بیان کرنا شروع کیا اور کہا وہ پہلا آدمی جس کا ہاتھ مسلمانوں میں سے کاٹا گیا ایک انصاری آدمی تھا جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا گویا کہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا رنگ انتہائی رنج سے متغیر ہوگیا تھا۔صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا ہاتھ کاٹا جانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر بڑا گراں گزرا؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس رنج سے کیا مانع تھا تم لوگ اپنے ساتھی کے خلاف شیطان کے معاون بن گئے۔ اللہ پاک معافی دیتا ہے اور معاف کرنے کو دوست رکھتا ہے اور کسی والی کیلئے جب اس کے پاس حد کا کوئی معاملہ لایا جائے حد کے قائم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس کے بعد آپ نے یہ آیت پڑھی۔ ترجمہ: چاہیے کہ معافی اور درگزر کریں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں