غشی بذات خود کوئی مرض نہیں ہے بلکہ مختلف نوعیت کے لحاظ سے یہ مرض اور طبی و مرضیہ کیفیات کے باعث ظہور میں آتی ہے لیکن غشی کا طاری ہونا بہرحال بہت خطرناک کیفیت ہے اور بعض امراض میں تو یہ مہلک امراض کا پیش خیمہ بھی ثابت ہوتی ہے اکثر بہت زیادہ خوف و غم یا یکایک کسی شدید ذہنی و روحانی کرب کے باعث بحالت صحت بھی اچانک اس کا حملہ ہوجایا کرتا ہے۔ مشہور محقق و حکیم بقراط کا قول ہے کہ :”جن لوگوں کو کسی ظاہری سبب کے بغیر بار بار غشی آئے وہ دفعتاً موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔“ رموز صحت وحکمت کے شہرہ آفاق شارح حکیم ابوالحسن بن سہل ابن طبری کی تشریح کے مطابق بقراط کے اس قول کا مفہوم یہ ہے کہ ایسے لوگوں کا جسم جلد تحلیل کو قبول کرنے کے قابل ہے اور ان کی حرارت غریزیہ نہایت کمزور ہے یہی وجہ ہے کہ ادنیٰ سبب کی بنا پر ان کی حرارت غریزیہ جلد بُجھ جاتی ہے اور وہ موت کا شکار ہوجاتے ہیں۔
آئمہ طب کی تحقیق کے مطابق غشی کے نمایاں اسباب یہ ہیں:
٭ جسم سے کافی مقدار میں خون کا بہہ نکلنا۔٭ بخار کی شدید ترین حالت٭ جسم کے کسی حصے میں درد شدید کا رونما ہوکر دل کا اس صدمے سے متاثر ومغلوب ہونا۔٭ حالت مرض میں مریض کے احساس پر خوف‘ غیض و غضب یا شدید غم کا طاری ہونا۔٭ کثرت سے دست (اسہال) آنا۔٭ جسم میں بہت زیادہ رطوبات کی کثرت یا قلت ہونا۔٭ قولنج وغیرہ کا ایسا شدید درد کہ جس کا صدمہ دل کے لیے ناقابل برداشت ہوجائے۔٭ کسی سبب سے جسم سے بہت زیادہ پسینہ کا اخراج۔٭ اگر عورت ہوتو مریضہ کا اختناق الرحم میں مبتلا ہونا۔
جب معدے میں رطوبات کی کثرت سے متلا زیادہ ہوتا ہے تو اس کی وجہ سے دل کی حرارت گھٹ جاتی ہے اور معدے میں رطوبات کا فقدان ہوجائے تو لازمی طور پر دل کی حرارت منتشر اور کمزور ہوجاتی ہے۔ اس لیے ہر دو صورتوں میں غشی طاری ہوتی ہے اگر جسمانی کیفیات یکایک متغیر ہوجائیں یعنی جسم گرم سے ٹھنڈا اور ٹھنڈے سے گرم ہوجائے تو ایسی صورت میں بھی مریض غشی میں مبتلا ہوجاتا ہے کیونکہ جب مریض کے جسم کو یک بیک ٹھنڈک پہنچتی ہے تو شدت برودت سے مسامات بند ہوکر جسم بخارات سے بھرجاتا ہے اور بے چینی اور غم کی حالت طاری ہوجاتی ہے اور جب اچانک جسم گرم ہوجائے تو شدت حرارت سے حرارت غریزی خشک ہوکر ضعف قلب پیدا ہوجاتا ہے۔
جب جسم میں صفراوی اور بلغمی مادے پگھل کر رقیق ہوجاتے ہیں تو پسینہ کثرت سے آتا ہے گرم پسینہ کا آنا حرارت غریزی کے قوی ہونے پر دلالت کرتا ہے اور یہ اس بات کی علامت ہے کہ مرض آسانی سے دور ہوجائے گا جبکہ ٹھنڈے پسینہ کا آنا مرض کے طول کھینچنے کی علامت ہوتا ہے امراض حادہ میں ٹھنڈا پسینہ مرض الموت کا پیش خیمہ ہے لیکن ہلکے بخاروں میں ٹھنڈا پسینہ صرف طول مرض کی نشانی ہے۔ البتہ اگر بخاروں کے مریض کو پسینہ آنے کے بعد بخار میں تخفیف نہ ہو تو یہ ایک بُری علامت ہے۔
علاج کے سلسلے میں اگر غشی کا سبب کثرت رطوبات ہو تو اس کا علاج اسغراخ بدن ہے اگر قلت رطوبات اس کا سبب تشخیص ہو تو مریض کو ہلکی زود ہضم غذائیں دینا بہتر تدبیر ہے۔ اگر غشی کا سبب پسینہ کی کثرت ہو تو ایسی حالت میں عربی بید مشک عرق گلاب عرق برگ آس کو بطور طلا لگانا اور چہرے پر ٹھنڈا پانی چھڑکنا مفید ہے اگر جسم سے بہت زیادہ خون کا اخراج اس کا سبب ہو تو سب سے پہلے اخراج خون کو روکنے کی تمام ممکنہ تدابیر اختیار کرنی چاہیے اگر کثرت قے کے سبب سے غشی طاری ہوجائے تو مصطگی 2 گرام سیب کے جوس کے ہمراہ قے کو روکنے کی کوشش کرنی چاہیے اور ایک ایک گھنٹہ کے بعد مریض کے معدے پر زعفران سوسن برگ آس چرائتہ عود ہر ایک دو گرام پیس کر پانی میں ملا کر ضماد کریں۔ مریض کو خام انگور کھلانا بھی مفید تدبیر ہے۔ اگر خام انگور میسر نہ ہوں تو منقیٰ کھلانا بھی فائدہ مند ہے۔
اگر بڑی آنتوں میں صفرا کی موجودگی اس کا سبب ہو تو مندرجہ ذیل ادویات کا حقنہ اس کا بہترین تدبیر علاج ہے۔ جو مقشر‘ گل بنفشہ‘ تخم خطی‘ سپستان گل بابونہ ہرایک دس گرام تا تیس گرام تک۔ ان تمام ادویہ کو بھگو کو جوش دے کر چھان لیں اور اس میں روغن بنفشہ ملا کر حقنہ کریں۔ مریض کو چھینک اور قے لانے کی کوشش کرنی چاہیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں