میری عمر اس وقت 55 کے لگ بھگ ہے‘ شادی شدہ اور 5 بچوں کا باپ ہوں‘ کپڑے کی صنعت کے ایک بہت بڑے گروپ سے وابستہ ہوں‘ عہدہ بھی اچھا ہے‘ معاشرے میں بہت سے لوگ میری پوسٹ اور نوکری پر رشک کرتے ہیں۔ لیکن شاید ہی کسی کو معلوم ہے کہ میری آمدنی انتہائی قلیل ہے۔ میں نے اس گروپ میں جس عہدے اور سیٹ پر کام شروع کیا تھا بیس سال گزرنے کے باوجود میں وہیں کا وہیں ہوں۔ میری تعلیم ایم اے ہے۔ قابلیت کی بھی کمی نہیں‘ صحت بھی اب تک قابل رشک ہے‘ اللہ نے بے شمار خوبیوں سے نوازا‘ میرا مطالعہ بھی خوب ہے۔ اپنے وقت کے معروف ڈیزائنر سے تعریف کی سند تحریری طورپر مجھے ملی ہوئی ہے لیکن ان سب کے باوجود میرے مال میں برکت نہیں۔ میری قابلیت کو اللہ کی طرف سے شرف قبولیت نہیں ہوسکی اس کی وجہ جہاں تک میں جان سکا ہوں ”ماں کی بددعا“ ہے۔ میری ماں غصے کی بہت تیز تھیں۔ میں نے جب سے ہوش سنبھالا انہیں غصے میں والد صاحب سے لڑتے ہوئے ہی پایا۔ مجھے یاد نہیں پڑتا کہ کبھی انہوں نے مجھے پیار سے بلایا ہو یا کبھی ہمیں دعا سے نوازا ہو۔ لہٰذا رفتہ رفتہ ہم ان سے دور ہوتے چلے گئے۔ میں زیادہ تر وقت گھر سے باہر دوستوں میں گزارنے لگا۔ رفتہ رفتہ گھر سونے اور کھانے کا ٹھکانہ بن گیا۔ والدہ سے جھگڑا‘ بیزاری آہستہ آہستہ ہمارا معمول بن گیا۔
شاید یہ گھر سے فرار کی ایک کوشش تھی کہ بچپن ہی سے میں نے اپنے دل میں یہ ٹھان لی کہ میں نے اس ملک میں نہیں رہنا اور میں باہر ملک چلا جائوں گا۔ میں نے صرف 22 سال کی عمر میں اپنا پاسپورٹ بنوالیا۔ ایک جاننے والا واقف کار مل گیا۔ اس نے کہا میں تمہیں انگلینڈ لے جائوں گا۔ وہاں پر واقعی اس کا کاروبار تھا۔ میں اس بات سے بے حد سرشار تھا۔ خیال تھا چند روز میں ہمیشہ کیلئے اس ملک اور گھر سے چلا جائوں گا۔ اس چکرمیں اپنی جاری تعلیم بھی ادھوری چھوڑ دی۔
یاد رہے کہ یہ امن کا زمانہ تھا۔ یہ 1982ءکا ذکر ہے اس وقت تک کسی ملک میں جانا کوئی مشکل نہ تھا۔ انگلینڈ کا ابھی ویزہ بھی نہ شروع ہوا تھا۔ بس ٹکٹ اور تھوڑے سے ڈالر آپ کی جیب میں ہوں تو داخلہ ویزہ ایئرپورٹ پر ہی مل جایا کرتا تھا۔ آج کی طرح یہ قطعی مشکل نہ تھا۔ میری طرف سے تیاری سوفیصد مکمل تھی کہ اچانک نجانے کسی بات پر والدہ سے تلخی اور تکرار ہوگئی میں بھی غصے کا تیز‘ گستاخ اور زبان دراز واقع ہوا تھا والدہ کسی بات پر ڈانٹ رہی تھیں اور میں ترکی بہ ترکی جواب دے رہا تھا۔ والدہ نے کہا ”تیرا ابھی سے یہ عالم ہے تو تُو باہر جاکر کب کسے یاد رکھے گا؟“ میں نے بھی غصے میں جواب دیا ”ہاں ہاں ٹھیک ہے نہیں کسی کو یاد رکھوں گا“ نجانے وہ کونسی قبولیت یا قیامت کی گھڑی تھی آج اس واقعہ کو گزرے 29 سال ہوچکے ہیں لیکن میں ابھی تک ماں کے چہرے کے وہ تاثرات‘ وہ الفاظ فراموش نہیں کرسکا۔ میری والدہ نے منہ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا تھا ”لے پھر میں دیکھتی ہوں کہ تو باہر کیسے جاتا ہے۔“
قارئین! وہ دن اور آج کا دن میں نے ہر حربہ آزما لیا میں باہر نہ جاسکا اور نہ ہی میں ادھر پنپ سکا۔ سونے میں ہاتھ ڈالتا ہوں تو مٹی ہوجاتا ہے۔ جس پوسٹ پر نوکری کرنا لوگ فخر سمجھتے ہیں میں اس پوسٹ پر بیس سال سے کام کررہا ہوں‘ لیکن معاملات جوں کے توں۔ لوگ مجھے نہایت خوشحال اور کوئی بڑا آدمی سمجھتے ہیں لیکن حقیقت سے یا تو میں خود واقف ہوں یا پھر چند ایک لوگ۔ قارئین عبقری! تیس سالہ جدوجہد اور ناکامیوں اور ٹھوکروں کی داستان نہایت طویل اور تکلیف دہ ہے۔ لہٰذا نہایت اختصار سے کام لے رہا ہوں۔ ماں کی دعا کا بھی ہمارے خاندان ہی کا ایک واقعہ اور سن لیں۔ ہمارے ایک رشتے دار کو بھی میری طرح باہر جانے کا شوق تھا۔ یہ لڑکا نہ تو پڑھا لکھا تھا حتیٰ کہ اپنا نام تک نہ لکھ سکتا تھا۔ معمولی سی دکان تھی۔ برگر‘ سموسے لگاتا تھا۔ غرض کہ دنیاوی کوئی گن یا خوبی بظاہر دکھائی نہیں دیتی تھی۔ اس کو بھی انہی دنوں باہر جانے کا خبط سوار ہوا جن دنوں میں جانا چاہتا تھا جب اس کی ماں کو معلوم ہوا کہ میرے بیٹے کو باہر جانے کا شوق ہے تو اس نے دن رات اپنے بیٹے کیلئے دعائیں شروع کردیں‘ وظیفے اور پڑھایاں شروع کردیں حتیٰ کہ یہ لڑکا جیسے تیسے فرانس چلا گیا۔ بیس پچیس سال سے غالباً ابھی تک اُدھر ہی ہے۔ خوب پیسہ بھی کمایا‘ اس کے فرانس جانے کے بعد ایک مرتبہ اُس لڑکے کی والدہ نے بتایا کہ میں اپنے بیٹے کیلئے راتوں کو چھت پر کھڑے ہوکر دعائیں کیا کرتی تھی۔ قارئین عبقری! فرق صاف ظاہر ہے‘ یہ ہے فرق قابلیت کا اور قبولیت کا۔
آپ نے میری داستان پڑھ لی میری آپ سے التجا ہے کہ جو بھی میرا یہ خط پڑھے وہ میرے لیے کم از کم ایک مرتبہ دعا ضرور کردے۔ شاید کسی کی دعا میرے حق میں قبول ہو اور میں ماں کی بددعا کے بداثرات سے نکل سکوں۔ دوسرے کبھی اپنے بچوں کو غصے میں بددعا نہ دیں نجانے اس کے اثرات کتنی نسلوں تک چلیں۔ جن کے والدین حیات ہیں ان کی خدمت کریں دعائیں لیں اور بقول قرآن ”انہیں اُف تک نہ کہو“
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 561
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں