حضرت علی رضی اللہ عنہ کی شجاعت
ایک جنگ میں لڑائی اپنے عروج پر تھی‘ موت کا رقص جاری تھا اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ شہادت کے شوق میں میدان کارزار میں اپنی جان کی بازی لگاتے ہوئے کسی تردودتامل اور بزدلی کے بغیر جوہرشجاعت دکھارہے تھے اور بہت سے یہودیوں کو ٹھکانے لگا چکے تھے‘ قلعہ فتح ہونے کے قریب تھا کہ اچانک قلعہ کے پہرہ داروں کا ایک گروہ نکلا اور اس گروہ کے ایک آدمی نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پر اس زور سے وار کیا کہ ڈھال بھی آپ کے ہاتھ سے گرگئی چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پکار کر کہا:” اس ذات کی قسم جس کے قبضہ میں میری جان ہے یا تو میں بھی شہادت کا وہی مزا چکھوں گا جو حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے چکھا تھا یا اللہ تعالیٰ میرے لیے ضرور اس قلعہ کو فتح فرمادیگا۔“
یہ فرما کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ شیر کی طرح ایک پرانے دروازے کی طرف دوڑے جو قلعہ کے پاس پڑا ہوا تھا آپ نے اس دروازہ کو اٹھایا اور اس کو ڈھال کی جگہ استعمال کرتے ہوئے بچائو کا ذریعہ بناتے رہے‘ جب تک آپ دشمنوں سے لڑنے میں مصروف رہے وہ دروازہ آپ کے ہاتھ میں ہی رہا‘ یہاں تک کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ نے اس قلعہ کو فتح فرمایا تو آپ نے اس دروازہ کو پھینک دیا۔
حضرت ابو رافع رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ”حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ موجود لشکر اس بات کا عینی شاہد ہے کہ میں نے اپنے سات آدمیوں سمیت یہ کوشش کی کہ اس دروازہ کو اٹھائیں یا الٹا کردیں جسے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اٹھارکھا تھا لیکن ہم ایسا نہ کرسکے۔ “
مسئلہ تقدیر کی وضاحت
ایک مرتبہ ایک کمزور جسم کا شخص حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے سامنے بیٹھ کر کمزور آواز میں کہنے لگا: ”حضرت رضی اللہ عنہ ! مجھے تقدیر کے بارے میں بتائیے کہ اس کی حقیقت کیا ہے؟“ اس کے اس سوال کے جواب میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ”یہ ایک تاریک راستہ ہے تم اس پر نہیں چل سکو گے“”آپ مجھے تقدیر کے بارے میں بتادیجئے“ اس شخص نے دوبارہ اپنا سوال دہرایا۔ ”یہ ایک گہرا سمندر ہے تم اس میں داخل نہیں ہوسکتے“
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسے سمجھانے کی کوشش فرمائی لیکن وہ شخص مسلسل اصرار کرتے ہوئے ان سے تقدیر کے متعلق سوال کرنے لگا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ”یہ اللہ کا راز ہے جو تجھ سے پوشیدہ ہے لہٰذا تم اس راز کو افشا نہ کرو“ جب اس شخص کا اصرار مزید بڑھا اور اس نے ایک مرتبہ پھر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے تقدیر کے متعلق سوال کیا تو حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ”اے سوال کرنے والے! یہ تو بتا کہ اللہ تعالیٰ نے تجھے اپنی منشاءکے مطابق پیدا کیا یا تیری مرضی کے مطابق؟“ اس نے عرض کیا کہ ”اللہ نے مجھے اپنی مرضی اور منشاءکے مطابق پیدا کیا ہے“ چنانچہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ”تو بس پھر تجھے جس کام کیلئے چاہے استعمال کرے۔“
ایک یہودی کا قبول اسلام
ایک مرتبہ ایک یہودی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور خباثت بھرے انداز میں پوچھنے لگا ”حضرت! ہمارا رب کب سے ہے؟“ یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا چہرہ متغیر ہوگیا‘ رخسار سرخ ہوگئے‘ اپنا ہاتھ اس کے شانے پر رکھ کر اس کو جھنجھوڑا اور فرمایا ”وہ ذات ایسی نہیں ہے کہ ایک زمانہ میں موجود نہیں تھی پھر موجود ہوئی‘ بلکہ وہ ابتداءسے موجود ہے‘ وہ ذات بلاکیفیت ہے‘ نہ اس سے قبل کچھ تھا اور نہ اس کی کوئی انتہا ہے وہ ہر انتہاءکی انتہاءہے“
اس آدمی نے انکساری کے ساتھ اپنا سر جھکا لیا اور کہنے لگا: ”اے ابوالحسن آپ نے سچ فرمایا‘ اے ابوالحسن آپ نے سچ فرمایا۔“ پھر اس کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور اس نے اللہ تعالیٰ کی معبودیت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کیا اور مسلمان ہوکر واپس چلا گیا۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ کی حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے محبت
ایک مرتبہ امیرالمومنین حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ پرانے وبوسیدہ کپڑوں میں ملبوس شکستہ و خستہ حال بیٹھے تھے اور ذکر وتسبیح میں مشغول تھے کہ ابومریم (ایک غلام) حاضر خدمت ہوئے اور متواضعانہ انداز میں دوزانوں بیٹھ کر عرض کیا ”یاامیرالمومنین! میں آپ کے پاس اپنی ایک درخواست لے کر آیا ہوں“ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے درخواست کے متعلق پوچھا تو ابومریم کہنے لگے میری درخواست یہ ہے کہ آپ اپنے جسم سے یہ چادر اتار دیں کیونکہ یہ بہت پرانی اور بوسیدہ ہے۔“
یہ سن کر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے چادر کا ایک کونا اپنی آنکھوں پر رکھا اور زارو قطار رونے لگے یہ منظر دیکھ کر ابومریم بہت شرمندہ ہوئے اور عرض کیا ”اے امیرالمومنین! اگر مجھے معلوم ہوتا کہ میری اس بات سے آپ کو تکلیف ہوگی تو میں کبھی آپ کو چادر اتارنے کا نہ کہتا“
”اے ابو مریم! اس چادر سے میری محبت روز بروز بڑھتی جاتی ہے کیونکہ یہ چادر مجھے میرے حبیب اور خلیل نے تحفہ دی تھی“۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ گویا ہوئے۔
”اے امیرالمومنین! آپ کے خلیل کون ہیں؟“ ابومریم نے بنظر استعجاب دریافت کیا۔
”میرے خلیل حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ہیں بلاشبہ عمر رضی اللہ عنہ اللہ کے ساتھ تو مخلص تھے اور اللہ تعالیٰ نے بھی ان کے ساتھ بھلائی کی۔“ یہ فرما کر حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ دوبارہ رونے لگے حتیٰ کہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سینہ مبارک سے گونج دار آوازیں آنے لگیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 529
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں