(بحوالہ: شہاب نامہ از قدرت اللہ شہاب)
مکہ میں نالے کے کنا رے میرے بالکل قریب بہا ول پور کے ایک خاندان نے ڈیرہ لگا یا ہواتھا۔ ایک بوڑھے میا ں بیوی کے ساتھ ان کی جوان بہو تھی۔ بڑے میا ں تو خامو ش بیٹھے حقہ پیتے رہتے تھے۔ لیکن ساس اور بہو میں بات بات پر بڑی طویل لڑائی ہو ا کر تی تھی۔ لڑائی میں ہا ر اکثر بہو کی ہوا کر تی تھی اورہر شکست کے بعد وہ روتی ہوئی اٹھ کھڑی ہوتی تھی اور ساس سے کہتی تھی، اچھا تم نے جتنا ظلم کر نا ہے مجھ پر کر لو، میں ابھی جاکر طوا ف کر تی ہو ں اور اللہ میا ں کے پا س اپنی فریاد پہنچا تی ہو ں۔ یہ دھمکی سنتے ہی اس کی ساس فوراً پہنچ جاتی تھی اور بہو کا دامن پکڑ کر بڑی لجا جت سے کہتی تھی، نہ بیٹی نہ توتو میری بیٹی ہے، ایسی غلطی نہ کرنا، خوامخواہ کوئی الٹی سیدھی بات منہ سے نکال بیٹھنا، طوا ف میں جو منہ سے نکل جائے، وہ پوراہو کر رہتا ہے۔
یہ ڈرامہ رات دن میں کئی بار ہو تا تھا۔ ایک روزبڑی شدید گرمی تھی۔ دوپہر کے وقت اچا نک آندھی آئی اور خوب تیز بارش ہونے لگی۔ نالے کے کنا رے مقیم حاجیو ں کا سامان کیچڑ میں لت پت ہو گیا۔ اب سا س بہو میں چخ چخ ہونے لگی۔ غصے میں آکر ساس نے بہو کو چوٹی سے پکڑ لیا اور اسے جھنجھوڑ کر کہنے لگی، آج صبح طوا ف میں یہ حرامزادی کہہ رہی تھی، اللہ میاں، بڑی گرمی ہے، اللہ میا ں بڑی گرمی ہے، اللہ میا ں بار ش، اللہ میا ں بارش۔ ارے کا لے منہ والی، تمہیں پتہ نہیں، یہاں ہر دعا قبول ہو جا تی ہے، اب بار ش کا مز ا چکھ، اب یہ سامان تیرا با پ آکر سکھا ئے گا۔ اس خاندان سے ہٹ کر ایک جوان جوڑے کا بسیرا تھا۔ یہ میاں بیوی بے اولا د تھے اور بچے کی آرزو لے کر حج کرنے آئے تھے۔ اپناپہلا طوا ف کر کے یہ وا پس آئے تو بیو ی نے بڑے وثوق سے کہا اب ان کی مرا د ضرور پوری ہوجائے گی۔ کیونکہ طوا ف کے دوران اس نے اللہ تعالیٰ سے بچہ کے علاوہ اور کچھ نہیں ما نگا۔
لڑکا ما نگا تھا یا صرف بچہ مانگا تھا، خاوند نے وکیلوں کی طرح جرح کی۔ لڑکے کی بات تو میں نے کوئی نہیں کی فقط بچہ مانگنے کی دعا کر تی رہی، بیوی نے جوا ب دیا۔
رہی اُوت کی اُوت، خاوند نے بگڑ کر کہا، اب اللہ کی مر ضی، چاہے تو لڑکا دے چاہے تو لڑکی دے، اب وہ تجھ سے پوچھنے تھوڑی آئے گا، اس وقت لڑکے کی شر ط لگا دیتی تو لڑکا ہی ملتا، یہا ں کی دعا کبھی نا منظور نہیں ہوتی۔
ان سیدھے سادھے مسلمانو ں کا ایمان اس قدر اسخ تھا کہ خانہ کعبہ کے گر د طواف کر تے ہی وہ کو ہ طور کی چوٹی پر پہنچ جاتے تھے اور اپنے معبو د حقیقی سے را ز و نیا ز کر کے نفس مطمئنہ کا انعام پا تے تھے۔ ان سب کو حق الیقین کی دولت حاصل تھی۔ وہ بڑی بے تکلفی سے اپنی اپنی فرمائشیں رب کعبہ کے حضو ر پیش کر کے کھٹا کھٹ قبولیت کی مہر لگوا لیتے تھے۔ ان کے مقابلے میں مجھے اپنی نما زیں، اپنے طوا ف اور اپنی دعائیں بے حد کھوکھلی، بے جان ،جعلی، نقلی او ر فرضی نظر آنے لگیں۔ میرا جی چا ہتا تھا کہ میں اس لڑاکا ساس اور بہو اور اس نوجوان کی بے اولا د بیوی کے پا ﺅ ں کی خا ک تبرک کے طور پر اپنے سر پر ڈالو ں تا کہ کسی طر ح مجھے بھی ان کے یقینِ محکم کا ایک چھوٹا سا ذرہ نصیب ہو۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں