2007ءکا ایک میری زندگی کا ایک بہت غلط فیصلہ جس نے میرا کاروبار تباہ کردیا۔ میرا لاہور مال روڈ پر دفتر تھا جو 2004ءکو بہت شوق اور بہت محنت سے بنایا تھا۔ میرے پاس چھ ملازمین کام کرتے تھے میرا کاروبار بہت عروج پر تھا میرے آفس میں بینک والے آتے تھے کہ آپ کی بینک سٹیٹمنٹ بہت اچھی ہے روزانہ ہزاروں روپے کا لین دین ہوتا ہے آپ بینک سے کار لیز کروالیں آپ کو پتا بھی نہیں چلے گا اور آپ گاڑی کے مالک بن جائیں گے میں نے گھر والوں سے مشورہ کیا سب نے کہا کہ رہنے دو۔ میرا دوست میرا کلاس فیلو بھی تھا اور رشتہ دار بھی تھا اس کی نئی نئی نوکری لگی تھی بینک میں وہ روزانہ شام کو فارغ ہوکر میرے پاس آجاتا تھا۔ وہ بینک کی مختلف سکیمیں بتاتا رہتا تھا پھر گاڑی کے بارے میں بھی کہ آپ بینک سے لے لو بس اس کاغذ پر سائن کرو اور پیسے جمع کروائو اور چند ماہ میں گاڑی آپ کی۔ میں نے ایک دن سائن کردیا اور وہ چند روز بعد آیا اور کہا کہ پیسے جمع کروا دو گاڑی مل جائے گی۔
میں نے انکار کردیا کیونکہ دل نہیں مانتا تھا کہ سود تو لعنت ہے۔ میرا ایک اور دوست ساتھ بیٹھا تھا وہ کہنے لگا کہ میں فیملی والا ہوں اور آج کل میرا گاڑی کے بغیر گزارا نہیں تو مجھے دے دو میں بینک سے چھ ماہ کے اندر اندر سارے پیسے دے کر گاڑی لے لوں گا اور تو بھی سود سے بچ جائے گا میں نے اپنی جان بچانے کیلئے اسے گاڑی لے دی۔ بس اس دن سے میرے کاروبار پر زوال شروع ہوگیا اور دن بدن کام کم ہوتا گیا اور ایک دن مجھے دفتر چھوڑنا پڑا اور میں بے روزگار ہوگیا پھر میرے دل میں ایک دن آیا کہ آج مجھے کاروبار کرتے ہوئے سات سال ہوگئے آج تک ایسا نہیں ہوا کہ میں اپنے خرچے سے بھی تنگ ہوں پھر میرے دل میں خیال آیا جو میں بھول چکا تھا کہ وہ لعنت سودی گاڑی ہے جس نے میرا کاروبار تباہ کیا میں نے اپنے دوست کی منت کی کہ تو بینک کو سارے پیسے ادا کر اور مجھے اور خود کو اس گناہ سے چھٹکارا دلوا اور پھر اللہ سے توبہ کی اور دعا کرتا رہا اور ایک دن بینک کو سارے پیسے دے کر سود سے نکل گئے اور پھر چند ماہ میں میرا وہی کاروبار پھر سے آباد ہوگیا۔ اللہ نے مجھ گندے انسان کو پھر سے نواز دیا۔ ورنہ میں تو بہت بڑا ظلم اپنے اور اپنے دوست کے ساتھ کرچکا تھا۔ اللہ نے اس سے نکال کر پھر سے صاف ستھرا کاروبار عطا فرمادیا۔
کتیاکی چیخ نے عرش ہلا دیا (پرنسپل غلام قاد ر ہراج‘ جھنگ)
آج سے 111 سال پہلے کا سچا واقعہ پیش خدمت ہے۔ ضلع سرگودھا میں دریائے جہلم کے کنارے گوندل قوم آباد تھی۔ چراگاہیں عام تھیں‘ گائے بھینس کا دودھ اور بھیڑ بکری کا گوشت عام تھا۔ کاشت کاری برائے نام تھی‘ گلہ بانی عام تھی۔
گوندلوں کی آبادی کا ایک نوجوان بانکا سجیلا تھا۔ صحت جوانی فارغ البالی‘ قبیلے کا گھمنڈ اور خوف خدا سے بے نیازی‘ اپنے اندازو اطوار میں شتر بے مہا رتھا۔ لاٹھی ہاتھ میں لے کر‘ شاہانہ لباس پہن کر علاقہ آہلی کی گلیوں میں عاد و ثمود کی ذہنیت کا مظاہرہ کرتا اور اکڑتا ہوا نظر آتا۔
ایک روز موسم بہت خوبصورت تھا وہ لاچہ اور لمبی قمیض پہن کر سر پر طرے دار پگڑی پہن کر اپنا پسندیدہ ہتھیار بلم لیکر دریا کے کنارے اپنی بھینسوں کو دیکھنے گیا۔ راستے میں ایک جھونپڑی نظر آئی جہاں دو بچے کھیل رہے تھے۔ قریب ہی ایک کتیا اپنے دوپلوں کو دودھ پلارہی تھی۔ نوجوان گوندل نزدیک آیا تو یہ غرانے لگی‘ نوجوان کا پارہ چڑھ گیا اس پر کوئی انسان ٹیڑھی آنکھ ڈالنے کی جرات نہیں کرتا تھا چہ جائیکہ ایک کتیا یہ حرکت کرے۔ نوجوان آگے بڑھا کتیا پھرغرائی اس نے اگلے لمحے بلم کی انی سے کتیا کا کام تمام کردیا۔ وہ چیخی‘ چلائی‘ تڑپی اور ٹھنڈی ہوگئی۔ بے گناہ کتیا مرگئی‘ اس کی چیخ وپکار نے عرش الٰہی ہلا کر رکھ دیا۔
چند دن بعد اس گوندل کا اپنے چچازاد بھائی سے جھگڑا ہوگیا۔ دوسرے ہی روز کسی اور کے ہاتھوں اس کا چچا زاد قتل ہوگیا۔ قاتلوں نے لاش دریا برد کردی‘ اگلی صبح لاش وہاں کنارے آلگی جہاں اس نوجوان کی بھینسیں بیٹھی جگالی کررہی تھیں۔ مقتول کے باپ نے مذکورہ نوجوان کو ہی قاتل قرار دیا۔ تھانے میں ایف آئی آر درج کرادی گئی اور اسے پکڑ کر گجرات جیل بھیج دیا گیا۔ سیشن جج میانوالی نے کیس کی سماعت کی اور اسے موت کی سزا سنائی۔ اپیلوں کا سلسلہ ڈیڑھ سال چلتا رہا۔ سب مسترد ہوگئیں۔ صرف وائسرائے کی رحم کی اپیل کا فیصلہ باقی تھا۔
ملزم کو یقین تھا کہ اسے پھانسی نہیں ہوسکتی کیونکہ وہ بے گناہ ہے نیز ٹوانہ برادری سے ان کے گہرے مراسم تھے اسے ان کی سفارش پر بھرپور یقین تھا۔ قاتل اور لوگ تھے جن کی لڑکی کے ساتھ مقتول کے ناجائز تعلقات تھے۔ اللہ کا کوڑا حرکت میں آیا پھانسی کیلئے اسے ڈسٹرکٹ جیل جھنگ کی کوٹھڑی میں بند کردیا گیا۔
یہاں سوتے میں وہ کیا خواب دیکھتا ہے کہ سامنے آسمان سے زمین تک ایک زنجیر لٹکی ہوئی ہے جس کسی کو عدل کی ضرورت ہو وہ اس زنجیر کو ہلاتا ہے۔ چنانچہ یہ نوجوان بھی زنجیر کے قریب جانے کی کوشش کرتا ہے کہ اپنی بے گناہی ثابت کرے مگر وہی کتیا اپنے دو بچوں کے ساتھ حائل ہوجاتی ہے۔ اسی طرح غراتی ہے اور قریب نہیں جانے دیتی۔ اب اس کی آنکھیں کھلتی ہیں کہ واقعی میں نے بلاوجہ ایک کتیا کے پیٹ میں بلم چبھو کر اسے مارا تھا۔ اس کا بدلہ مجھ سے لیا جارہا ہے۔ تمام اپیلیں اور سفارشیں مسترد ہوجاتی ہیں۔ آخر کار 5 اگست 1902ءکو صبح چار بجے اس نوجوان کو ڈسٹرکٹ جیل جھنگ میں پھانسی پر لٹکا دیا جاتا ہے۔ اس کی لاش خلاف معمول کافی دیر تک تڑپتی رہی اور یہ پیغام دیتی رہی کہ اللہ رب العزت کو اپنی مخلوق کتنی پیاری ہے اور یہ تقدیر کوئی اندھی‘ گونگی یا بہری چیز کا نام نہیں۔ یہ انسان کے اچھے برے اعمال کے تناظر میں حرکت کرتی رہتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں