حافظ اسلم صاحب نے بتایا کہ ان کے بزرگ دوست تھے ان کا نام حاجی رحیم بخش تھا۔حاجی رحیم بخش کا ایک دوست تھا۔ حاجی صاحب کئی دفعہ اپنے دوست سے اولاد کے رویہ کی بابت پوچھتے رہتے تھے مگر ان کا دوست وضع دار قسم کا آدمی تھا اس لیے ہمیشہ ہی اس نے اپنے بیٹوں کی تعریف کی کہ میرے بیٹے بہت اچھے ہیں‘ میرا بہت خیال رکھتے ہیں‘ وقت پر روٹی دیتے ہیں‘ مگر حاجی صاحب یہ بات ماننے کیلئے تیار نہیں ہوتے تھے ۔ ایک دن ان کا دوست بہت ہی نقاہت میں چل کر آیا اور اس کے چہرے پر پہلے والی رونق نہیں تھی۔ حاجی صاحب نے حال احوال پوچھا تو ان کا دوست خاموش ہوگیا۔ حاجی صاحب نے دوبارہ پوچھا تو ان کا دوست رونے لگا اور کہنے لگا کہ آج چوتھا دن ہے بیٹوں نے کھانا نہیں دیا حالانکہ سارے اکٹھے رہتے ہیں میں اپنی کوٹھڑی میں پڑا رہتا ہوں مگر کوئی پوچھنے تک نہیں آتا۔ یہ اس دور کی بات ہے جب چاندی کے سکے چلتے تھے۔ حاجی صاحب نے تمام معاملہ سننے کے بعد اپنے دوست کو کہا کہ گھبرانے کی ضرورت نہیں
جیسا میں کہتا ہوں ویسا کرتے جائو۔ حاجی صاحب نے مٹی کا ایک گھڑا منگوایا جو عام طور پر گھروں میں پانی کیلئے استعمال ہوتا ہے اور ایک ٹوٹا ہوا گھڑا منگوایا۔ ٹوٹے ہوئے گھڑے کے ٹکڑے ٹکڑے کردئیے اور جو سالم گھڑا تھا اس کو ان ٹکڑوں (ٹھیکروں) سے بھردیا۔ پھر 25 روپے چاندی کے سکے منگوائے اورگھڑے کے منہ پر رکھتے گئے۔ چاندی کے سکوں کو اس ترتیب سے رکھا کہ پورا گھڑا ہی چاندی کے سکوں سے بھرا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ جب گھڑا سکوں سے مکمل ہوگیا تو حاجی صاحب نے اپنے دوست کو سمجھایا کہ یہ گھڑا گھر لے جائو اوراپنی کوٹھڑی میں رکھ دو اور ایک ایک کرکے اپنے بیٹے اور بہو کو بلائو اور اسے کہو کہ میرے پاس ساری زندگی کی جمع پونجی یہ چاندی کے سکوں کا بھرا ہوا گھڑا ہے اور اس کا پتہ صرف ایک تم کو ہے باقیوں کو علم نہیں ہے حاجی صاحب کا دوست خوشی خوشی گھڑا گھر لے گیا اور اپنے بڑے بیٹے کو بلایا بہو ساتھ تھی۔ بڑے راز دارانہ لہجے میں کہا اور دکھایا کہ میرے پاس چاندی کے سکوں کا گھڑا بھرا ہوا ہے یہ آپ کا ہے۔ میرے مرنے کے بعد تم اکیلئے اس کے وارث ہو اور دوسرے بیٹوں کو اس کا علم نہیں۔ اسی طرح چاروں بیٹوں کو یہ بات کہی۔ اب چاروں بیٹے یہ سمجھ رہے تھے کہ اس خزانہ کی بابت صرف اسے علم ہے باقی بھائیوں کو علم نہیں ہے۔ دوسرے دن وہ دوست حاجی صاحب کو ملا اور کہا کہ مجھے سمجھ نہیں آتی کہ کونسا کھانا کھائوں کیونکہ چاروں بیٹوں کے گھر سے الگ الگ کھانا تین وقت آرہا ہے۔ اس طرح حاجی صاحب کی حکمت سے ان کے دوست کی زندگی اچھی گزرنے لگی اس واقعہ کے بعد حاجی صاحب کا دوست تقریباً ایک سال تک زندہ رہا۔ ایک سال بعد ان کا دوست فوت ہوگیا۔
حاجی صاحب کو اطلاع ملی فوراً اس کے گھر گئے اور اس کے کمرے کو تالا لگادیا اور سب کے سامنے کہنے لگے کہ مرحوم ان کا قریبی دوست تھا اور اس کے پاس ایک.... بس یہی الفاظ کہے کہ بڑا بیٹا بول پڑا کہ ٹھیک ہے ٹھیک ہے‘ حاجی صاحب نے چار بار کہا کہ ان کے پاس ایک.... تو ان کوئی نہ کوئی بیٹا بول پڑتا کہ ”ٹھیک ہے‘ ٹھیک ہے“ کیونکہ حاجی صاحب کو گھڑے کی کہانی کا مکمل علم تھا تو حاجی صاحب نے کہا کہ مرحوم کی تجہیزوتکفین اور قل خوانی ہوجائے اس کے بعد مرحوم کے ذاتی کمرے کا تالا کھولوں گا۔ چاروں بیٹوں نے مل کر بڑے اچھے طریقے سے قل خوانی کا اہتمام کیا۔ قل خوانی کے بعد چاروں بیٹے اس کوشش میں تھے کہ کسی طرح خزانے سے بھرا گھڑا اسے مل جائے مگر حاجی صاحب ان کے ہاتھ آنے والے نہ تھے۔ انہوں نے کہا کہ مرحوم نے میرے 25 روپے دینے ہیں وہ میں لوں گا۔ سب بیٹوں نے کہا کہ ہم 25 روپے دینے کیلئے تیار ہیں۔ سب بیٹوں کی موجودگی میں حاجی صاحب نے گھڑا نکالا‘ ہر بیٹا کہتا کہ اباجی یہ گھڑا اس کو دے گئے تھے۔ حاجی صاحب کہنے لگے تحمل کریں مرحوم گھڑے کے بارے میں مجھے سب کچھ بتاگئے ہیں اور گھڑے میں سے 25 روپے گن کر الگ کرلیے اور گھڑے کو الٹ دیا تو اس میں سے ٹوٹے ہوئے گھڑے کے ٹکڑے نکلے۔ سب بیٹے حیران و پریشان کہ یاالٰہی ماجرہ کیا ہے؟ حاجی صاحب نے تمام واقعہ سنایا کہ گھڑے کا مشورہ میں نے دیا تھا اور 25 روپے بھی میں نے دئیے تھے اس گھڑے کی وجہ سے آپ نے اپنے والد کی خدمت کی آپ کا شکریہ!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں