صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے آداب نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی اس سے اچھے الفاظ میں دینا مشکل ہے۔ تعریف اگر کسی دشمن کی زبان سے نکلے تو اس کی اہمیت زیادہ ہوجاتی ہے۔ مبارک بادی ہے ان عظیم بزرگوں کیلئے جنہوں نے اپنے آداب و اخلاق کا لوہا دشمنوں سے بھی منوالیا ہے
صلح حدیبیہ کے موقع پر قریش مکہ نے عروہ بن مسعود ثقفی کو نمائندہ بنا کر بھیجا تاکہ صلح کی شرائط طے کی جاسکیں۔ عروہ انتہائی ذہین‘ عقل مند اور غورو فکر کرنے والا آدمی تھا۔ مسلمانوں کے لشکر میں پہنچتے ہی اس نے ایک ایک چیز کو غور سے دیکھنا شروع کردیا یہاں تک کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں بیٹھ کر بات چیت کرنے کے دوران وہ مستقل صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے اٹھنے بیٹھنے کے انداز کو دیکھتا رہا جب وہ قریش مکہ کے پاس واپس آیا تو اس نے نبی علیہ السلام پر جان دینے والوں کے بارے میں ان خیالات کا اظہار کیا۔
اے میری قوم....!میں قیصرو کسریٰ اور نجاشی جیسے بادشاہوں کے درباروں میں حاضر ہوا ہوں میں نے کبھی ایسا بادشاہ نہیں دیکھا کہ جس کے اصحاب اس کا اتنا ادب کرتے ہوں جتنی عزت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب ان کی کرتے ہیں۔ اللہ کی قسم جب وہ تھوک بھی پھینکتے ہیں تو ان کے اصحاب میں سے کوئی نہ کوئی اپنے ہاتھ پر لے لیتا ہے۔ جب وہ وضو کرتے ہیں تو اس کا پانی لینے کیلئے اصحاب ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کوئی حکم فرماتے ہیں تو ان کے اصحاب اس حکم کو پورا کرنے کیلئے دوڑتے ہیں۔ جب وہ کلام فرماتے ہیں تو ان کے اصحاب کی آوازیں ہلکی ہوجاتی ہیں۔ مزید یہ کہ اصحاب انہیں بڑی محبت اور ادب کی نگاہوں سے دیکھتے ہیں۔“
صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے آداب نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی گواہی اس سے اچھے الفاظ میں دینا مشکل ہے۔ تعریف اگر کسی دشمن کی زبان سے نکلے تو اس کی اہمیت زیادہ ہوجاتی ہے۔ مبارک بادی ہے ان عظیم بزرگوں کیلئے جنہوں نے اپنے آداب و اخلاق کا لوہا دشمنوں سے بھی منوالیا ہے۔
ایک بزرگ فرماتے ہیں: ادب ایک تاج ہے جو اللہ تعالیٰ کے لطف و مہربانی سے ملتا ہے اسے اپنے سر پر رکھ اور جہاں چاہے جا۔ (عزت پائے گا)
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر کسی شدید ضرورت اور تقاضے کی وجہ سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حجرے کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑتا تو وہ ازراہ ادب اپنے ناخنوں سے کھٹکھٹایا کرتے تھے مقصد یہ ہوتا کہ اطلاع بھی ہوجائے اور زیادہ آواز بھی نہ آئے کہیں طبیعت مبارک پر بوجھ کا باعث بھی نہ بنے۔
ہمیں بھی اپنے بزرگوں‘ اللہ کے نیک بندوں‘ اساتذہ اور والدین کا ادب و احترام کرنا چاہیے اور ان کے سامنے شوروغل اور ان کے ساتھ بدتمیزی سے پیش آنا یا ان کی بات نہ ماننا یہ ان کے آداب کے خلاف ہے۔سکول سے جب واپسی ہو تو گھر کا دروازہ زور سے نہ کھٹ کھٹائیں بلکہ آہستگی سے اپنے آنے کی خبر دیں اور پھراندر جاکر دروازہ بند بھی آہستہ سے کریں تاکہ ہمارے عمل سے امی جان کو تکلیف نہ ہو اور ماں باپ جب ہمیں کچھ سمجھائیں تو ہم خاموشی سے ان کی بات سنیں اور اگر کبھی ڈانٹ بھی دیں تو ہرگز پلٹ کر جواب نہ دیں۔
بیٹا یہ کوا ہے
ایک صاحب بوڑھے ہوگئے‘ انہوں نے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم دلا کر فاضل (خوب قابل) بنادیا۔ ایک دن گھر کے صحن میں باپ بیٹا بیٹھے ہوئے تھے‘ اتنے میں ایک کوا گھر کی دیوار پر آکر بیٹھ گیا تو باپ نے بیٹے سے پوچھا کہ بیٹا! یہ کیا چیز ہے؟ بیٹے نے کہا ابا جان! یہ کوا ہے۔ تھوڑی دیر کے بعد پھر باپ نے پوچھا بیٹا! یہ کیا چیز ہے؟ اس نے کہ اباجان یہ کوا ہے۔
پھر جب تھوڑی دیر گزر گئی تو باپ نے پوچھا کہ بیٹے! یہ کیا چیز ہے؟ بیٹے نے کہا اباجان! ابھی تو آپ کو بتایا تھا کہ یہ کوا ہے۔
تھوڑی دیر گزرنے کے بعد پھر باپ نے پوچھا کہ بیٹا یہ کیا چیز ہے؟ اب بیٹے کے لہجے میں تبدیلی آگئی اور اس نے جھڑک کر کہا کہ اباجان! کوا ہے .... کوا....
پھر تھوڑی دیر کے بعد باپ نے پوچھا کہ بیٹا! یہ کیا ہے؟ اب بیٹے سے نہ رہا گیا اس نے کہا کہ آپ ہر وقت ایک بات پوچھتے رہتے ہیں۔ ہزار مرتبہ کہہ دیا کہ یہ کوا ہے....؟ آپ کی سمجھ میں بات نہیں آتی۔
بہرحال! اس طرح بیٹے نے باپ کو ڈانٹنا شروع کردیا۔ تھوڑی دیر کے بعد باپ اٹھ کر اپنے کمرے میں گیا اور پرانی ڈائری نکال لایا اور اس ڈائری کا ایک صفحہ کھول کر بیٹے کو دکھاتے ہوئے کہا کہ بیٹا! یہ ذرا پڑھنا کیا لکھا ہے؟ چنانچہ اس نے پڑھا تو اس میں یہ لکھا تھا کہ ”آج میرا چھوٹا بیٹا صحن میں بیٹھا ہوا تھا میں بھی بیٹھا ہوا تھا۔ اتنے میں ایک کوا آگیا تو بیٹے نے مجھ سے 25 مرتبہ پوچھا کہ اباجان یہ کیا ہے؟ تو میں نے 25 مرتبہ جواب دیا کہ بیٹا یہ کوا ہے اور اس ادا پر بڑا پیار آیا اس کے پڑھنے کے بعدباپ نے کہا!
بیٹا دیکھو! باپ اور بیٹے میں یہ فرق ہے۔ جب تم بچے تھے تو تم نے مجھ سے 25 مرتبہ پوچھا اور میں نے 25مرتبہ بالکل اطمینان سے نہ صرف جواب دیا بلکہ میں نے اس بات کا اظہار کیا کہ مجھے اس کی ادا پر بڑا پیار آیا۔ آج جب میں نے تم سے صرف پانچ مرتبہ پوچھا تو تمہیں اتنا غصہ آگیا۔
دیکھا دوستو! ہم بڑے ہوکر واقعی اپنے ماں باپ کے احسانات بھول جاتے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے کتنے مواقع پر ہمارے لیے نہ جانے کیا کیا مشکل برداشت کی ہوگی اس لیے ہم عہد کرلیں کہ کبھی ان سے غلط انداز سے بات نہیں کریں گے۔ اپنی آواز ان کی آواز سے نیچی رکھیں گے ان کی آواز پر نرمی سے جواب دیں گے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 252
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں