ایسی پریشان نہ تھی
شادی سے پہلے میری زندگی بہت پرسکون تھی۔ تعلیم حاصل کرنے کے بعد گھر پر آرام سے تھی کہ دور کے عزیزوں سے رشتہ آیا اور اب زندگی اس قدر بے سکون ہے۔ میرے شوہر کو گھر کے کسی مسئلہ سے کوئی مطلب نہیں۔ انہیں تو میری ذات کا بھی احساس نہیں۔ وہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہیں۔ اپنے خاندان کی لڑکیوں سے بے حد بے تکلفی ہے۔ ان کے ساتھ گھومتے پھرتے رہتے ہیں۔ میں رات کے دو تین بجے تک ان کا انتظار کرتی رہتی ہوں۔ ایک روز غصے میں آکر میں نے کہہ ڈالا کہ جن لڑکیوں کے ساتھ سیروتفریح کررہے ہیں انہی میں سے کسی سے شادی بھی کرلیتے تو وہ بہت ناراض ہوگئے اور پھر کئی روز تک انہوں نے مجھ سے بات نہ کی۔ میری ایک دوست نے کہا کہ اب تم میکے چلی جائو۔ خود تمہیں منانے آئیں گے مگر میں نے ایسا نہ کیا انہوں نے خود ہی منالیا۔ اب جلد گھر آنے لگے ہیں۔ مگر مجھے اپنی زندگی ادھوری اور بے سکون لگتی ہے کیونکہ اب ان کی ملنے والی خواتین گھر پر آجاتی ہیں۔ میرے لیے یہ صورتحال بھی تکلیف دہ ہے اور میں اپنے کمرے میں اکیلی بیٹھی رہتی ہوں۔ (فریحہ نور۔ لاہور)
مشورہ: شادی کے بعد ہر لڑکی کی زندگی میں غیرمعمولی تبدیلیاں آتی ہیں۔ ایک ایسا گھر جہاں ابتداءسے رہی ہو‘ اپنے ہوں انہیں چھوڑ کر دوسری جگہ اور غیرلوگوں میں منتقل ہونا پھر انہیں اپنا بنانا کچھ آسان کام نہیں۔ اس دوران پریشانی یا بے سکونی تو ہوسکتی ہے۔ شادی کے بعد کے مسائل کا دوستوں سے ذکر کرنے کا کوئی فائدہ نہیں بعض اوقات الٹا نقصان ہوتا ہے۔ شوہر سے جو شکایات ہیں ان پر بات کرلیں۔ راتوں کو دیر تک گھر سے دور رہنا اچھی بات نہیں۔ انہیں اس عادت کو بدلنا چاہیے اور آپ نے دیکھا کہ ان میں تبدیلی آئی اور وہ جلد گھر آنے لگے اور باتوں میں بھی آہستہ آہستہ تبدیلی آتی جائے گی اگر آپ صبروتحمل سے کام لیں گی تو سب کچھ ٹھیک ہوجائےگا۔
بجھ نہ جائے شمع حیات
میری عمر 26 سال ہے‘ گریجویٹ ہوں‘ سرکاری ملازمت بھی ہے۔ آٹھ سال سے ایک لڑکی سے دوستی ہے وہ میڈیکل کی طالبہ تھی اب ڈاکٹر بن گئی لیکن اب ان لوگوں کے رویے میں فرق آگیا۔ اس کے گھر والے اس کی شادی کہیں اور کرنا چاہتے ہیں۔ وہ خود بھی مجھ سے بدل گئی ہے۔ ملنا پسند نہیں کررہی۔ میں نے اپنا ایک گردہ کسی مستحق کو دینے کا وعدہ کرلیا ہے۔ جلد ہی آپریشن ہونے والا ہے۔ مگر مجھے مسلسل پریشانی اور فکر رہنے سے کمزوری ہوگئی ہے۔ نیند ٹھیک نہیں آتی نہ بھوک لگتی ہے۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ یہی حالت رہی تو آپریشن نہیں کریں گے۔ میں آپریشن سے پہلے اس سے ملنا چاہتا ہوں۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کہیں بجھ نہ جائے شمع حیات۔ مجھے لگتا ہے کہ نفسیاتی مریض بن چکا ہوں۔ پانچ بڑے بھائی ہیں۔ وہ بھی میری حالت پر پریشان ہیں۔ پرانی باتیں یاد کرکے روتا رہتا ہوں۔ (س۔ ایبٹ آباد)
مشورہ: آپ نے اپنے رویے میں جن شکایات کا ذکر کیا ہے یہ معمولی ذہنی امراض کی علامات میں سے ہیں۔ مثلاً ذہنی دبائو ‘ تشویش‘ احساس کمتری‘ بے خوابی‘ سردرد‘ بدہضمی وغیرہ شامل ہیں۔ ایسی صورت میں انسان کی ذہنی اور دماغی قوتیں کمزور پڑجاتی ہیں اور ایک بردبار‘ ذمہ دار اور کامیاب زندگی گزارنے میں مشکل محسوس ہوتی ہے۔ مستقل مایوس رہنا‘ مزید ناکام بنادیتا ہے۔ آپ کوشش کرکے خود کو بہتر بناسکتے ہیں کیونکہ آپ اپنی ذمہ داریاں انجام دے رہے ہیں۔ تعلیم یافتہ بھی ہیں۔ فی الحال جو تکلیف دہ کیفیت ہے وہ محبت میںناکامی کے سبب ہوسکتی ہے۔ اگر آپ حقیقت پسند بن کر سوچیں تو لڑکی اور اس کے گھر والوں کو اختیار ہے کہ وہ جس کے ساتھ چاہیں اپنی بیٹی کی زندگی کا فیصلہ کریں۔ آپ انہیں اپنے لیے مجبور نہیں کرسکتے۔ جہاں تک ملنے کا تعلق ہے تو وہ بھی جذبہ خود رحمی کے سبب ہے۔ زندگی میں ہر ایک کو اپنی خواہش کے مطابق سب کچھ نہیں ملتا۔ خلاف مزاج فیصلوں کیلئے بھی ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ جہاں تک گردہ دینے کی بات ہے تو اس سلسلے میں آپ نے اہل خانہ کو بتایا ہے اگر نہیں تو ضرور بتائیں۔ ان کی اجازت پر ہی کوئی فیصلہ کرنا چاہیے۔ انسان محبت کسی اور سے کرتا ہے اور اسے خود اپنے گھر سے محبت ملتی ہے۔ اصل بات یہی ہے کہ اپنے اہل خانہ کی قدر کی جائے جو ہمیشہ ہی آپ کے مخلص رہیں گے۔
مجرمانہ تغافل کے بعد
میرے بچے مجھے چھوڑ کر چلے گئے ہیں۔ بیٹی نے میٹرک کرلیا ہے اور بیٹا یونیورسٹی میں پڑھ رہا ہے۔ یہ دونوں بچے اب اپنی خالہ کے ساتھ رہ رہے ہیں۔ انہیں مجھ سے نفرت ہے۔ میں ملنے گیا تو اہل خانہ نے عزت دی‘ گھر میں بٹھایا مگر بچے سامنے نہ آئے‘ نہ بات کی۔ فون کرتا ہوں تو اٹھاتے نہیں۔ میری بیوی کے انتقال کو چھ ماہ ہوگئے ہیں‘ بہت صبر والی عورت تھی۔ عمر کوئی پچپن سال ہوگی۔ تین سال سے کینسر تھا۔ علاج ہوتا رہا مگر پھر طبیعت میں بہتری نہ آئی۔ میرا مزاج شروع ہی سے تیز تھا۔ میں بہت بولتا تھا۔ غصہ بھی زیادہ کرتا تھا۔ بچے چھوٹے تھے تو مجھ سے ڈرتے تھے۔ میں سمجھتا تھا کہ یہ اچھی بات ہے باپ گھر میں آئے تو بچوں کو خاموش ہوجانا چاہیے۔ مجھے یاد نہیں ہم نے کبھی ساتھ کھانا کھایا ہو۔ بچے ماں کے ساتھ کھانا کھاتے تھے۔ گھومنا پھرنا سکول کے معاملات سب ماں کے ذمے تھے۔ میں اب اپنی ملازمت سے ریٹائر ہوگیا ہوں عمر ساٹھ سال سے زیادہ ہوگئی ہے۔ اب احساس ہوتا ہے کہ میں نے مجرمانہ تغافل کیا ہے۔ شدید مایوسی کا شکار ہوں۔ کاش پرانا وقت واپس آجائے ۔(ایم یوسف ‘ راولپنڈی)
مشورہ: سخت مزاج لوگ اپنی زندگی کے آخری حصے میں عموماً تنہا ہی رہ جاتے ہیں جب تک آپ کی بیوی اس دنیا میں رہیں بچے ان کی وجہ سے ہی آپ کو برداشت کرتے رہے۔ مگر اب جبکہ ان کی ماں دنیا میں نہیں وہ سخت مزاج باپ کے ساتھ رہنے پر تیار نہیں ۔ بچوں کو جو ہم دیتے ہیں وہی ہمیں واپس ملتا ہے۔ آپ نے انہیں خود سے دور رکھا محبت تو کی مگر اظہار نہیں۔ وہ آپ کے دل میں اپنے لیے نرم گوشے کو محسوس نہ کرسکے بلکہ اپنی ماں کی محبت کی تلاش میں خالہ کیساتھ رہنے لگے۔آپ انکی خالہ سے کہیں کہ اس معاملے میں آپ کی مدد کریں۔خالہ کے سمجھانے سے بچوں پر اچھا اثر پڑے گا۔
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 010
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں