گرمیوں کی دوپہر تھی ناصرہ کی آنکھ یکایک خودبخود کھل گئی اس کے سینے میں شدید درد تھا۔ دل پر چھریاں سی چل رہی تھی۔ اس نے اپنے بچوں کی طرف دیکھا جو ہوم ورک کرنے میں مصروف تھے۔ ماں کی تڑپتی حالت دیکھ کر بچے ہوم ورک چھوڑ کر ماں کی طرف بھاگے
ناصرہ نے دوپہر کو بچوں کو کھانا کھلایا‘ ابھی وہ خود کھاہی رہی تھی کہ اس کے شوہر کا فون آگیا کہ میں شام کو آرہا ہوں اور تمہارے لیے ایک خوشخبری بھی لارہا ہوں۔ ناصرہ نے بے چینی سے پوچھا کہ کیا خوشخبری ہے۔ مگر منیر نے یہ کہہ کر فون بند کردیا کہ گھر آکر ہی بتائوں گا۔
ناصرہ گومگو کی کیفیت میں تھی کہ بھئی کیا خوشخبری ہوسکتی ہے تھوڑا سا بتاہی دیتے تو یہ بے چینی ختم ہوجاتی۔ بہرحال ناصرہ یہ سوچتے سوچتے نیند کی وادی میں پہنچ گئی۔ گرمیوں کی دوپہر تھی ناصرہ کی آنکھ یکایک خودبخود کھل گئی اس کے سینے میں شدید درد تھا۔ دل پر چھریاں سی چل رہی تھی۔ اس نے اپنے بچوں کی طرف دیکھا جو ہوم ورک کرنے میں مصروف تھے۔ ماں کی تڑپتی حالت دیکھ کر بچے ہوم ورک چھوڑ کر ماں کی طرف بھاگے۔ ماں نے بمشکل کہا کہ اپنے ماموں اور چچا کو فون کرو ہسپتال جانا ہے۔ بچوں نے جلدی جلدی فون کیے اور آدھے گھنٹے بعد ناصرہ ایمرجنسی میں موجود تھی۔ دل کی دھڑکن بھی تیز تھی۔ البتہ بلڈپریشر نارمل تھا۔ ڈاکٹروں کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ بہرحال ڈاکٹر ناصرہ کے ٹیسٹ وغیرہ لینے لگے۔ سب اس بات پر پریشان تھے کہ کہیں ہارٹ اٹیک تو نہیں ہے۔ فوراً ناصرہ کے شوہر کو فون کرکے دوسرے شہرسے سے بلوایا گیا۔ جو ایک ضروری کام کی غرض سے گئے ہوئے تھے۔ ہسپتال میں تیسرا دن تھا۔ درد خودبخود ٹھیک ہوگیا تھا۔ دل کی سب کی سب رپورٹیں صحیح تھیں۔ لہٰذا ناصرہ کو ہسپتال سے چھٹی ملی اور وہ شوہر اور بھائیوں کے ساتھ گھر آئی۔ بھائیوں کے جانے کے بعد ناصرہ فوراً بولی۔ اچھا بتائیے کیا خوشخبری تھی؟ میاں صاحب بولے بات تو خوش خبری کی ہے لیکن اب خوشخبری کا رخ بدل گیا ہے‘ ناصرہ بولی چلیں بتائیں تو سہی‘ کوئی بھی رخ۔
وہ بولے میں دوسرے شہر اپنے دوست منیر کے پلاٹ بیچنے گیا تھا۔ منیر نے کہا تھا کہ پلاٹ پانچ لاکھ تک کا بکے تو پانچوں پلاٹ بیچ دو اور اپنے شہر میں اچھا سا پلاٹ یا مکان لے لو لیکن جب مجھے پتہ چلا کہ ایک پلاٹ کی قیمت سات لاکھ مل رہی ہے تو میری نیت میں فتور آگیا۔ اس حساب سے مجھے دس لاکھ روپے بچتے تھے جو ہمارے لیے خوشخبری تھی۔ ابھی ایک ہی پلاٹ بکا تھا اور اس کی قیمت ملی تھی کہ تمہاری خبر مل گئی۔ یقین جانو ناصرہ کہ وہ ایک پلاٹ کی خردبرد کی ہوئی رقم دو لاکھ تین دن میں ہسپتال کی نذر ہوگئی۔ افسوس مجھے اس بات کا ہے کہ منیر نے مجھ پر بھروسہ کیا مگر میں نے اسے دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ لیکن اب خوشخبری کا رخ بدل چکا ہے میں اس کا ایک روپیہ بھی نہیں رکھوں گا۔ اب میں اللہ پاک کو گواہ بنا کر کہتا ہوں کہ اب میں ایسی ہیرا پھیری کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ جو بیماری کی صورت یا کسی تکلیف کی صورت میں پیسے نکل جائیں۔ اے اللہ تو نے مجھے دھوکہ دہی سے بچالیا۔ یا اللہ میری اور میرے گھر والوں کی حفاظت فرما۔
مثبت سوچ.... اچھی صحت
جن لوگوں کی سوچ کا انداز منفی ہوتا ہے ان کے بیمار رہنے کے امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔ وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ منفی سوچ ہمارے جسم کے مدافعتی نظام کو کمزور کردیتی ہے اور پھر وہ مختلف طرح کے تعدیوں کی زد میں رہتا ہے۔ یہ محض ایک مفروضہ ہی نہیں ایک سائنسی حقیقت ہے۔
امریکی سائنس دانوں نے حال ہی میں 52 لوگوں پر اپنے تجربات کیے جن کی عمریں ستاون سے ساٹھ سال تھیں۔ تجربوں کے دوران مختلف ذہنی کیفیتوں میں ان لوگوں کے دماغ کے مختلف حصوں کے عکس لے کر یہ جاننے کی کوشش کی گئی کہ ان کیفیتوں میں مختلف حصوں کی کارکردگی کتنی اور کیسی رہی۔ یہ تجربہ مہینوں جاری رہا۔ اس دوران ان کے جسم میں فلو وائرس ویکسین داخل کرکے یہ بھی دیکھا گیا کہ ان کے جسم میں اس انفیکشن سے مقابلے کیلئے کس قدر ضد اجسام (اینٹی باڈیز) بنے۔
امریکہ کی ویسکونسن یونیورسٹی کے ایک سائنسدان نے جو اس تحقیق کی قیادت کررہے تھے جمع شدہ اعدادو شمار کی بنیاد پر یہ بات کہی کہ جذبات اور جسمانی صحت کے باہمی تعلق پر پہلے بھی تحقیق ہوچکی ہے اور یہ مانا گیا ہے کہ ہمارے جذبات کا جسمانی صحت سے تعلق ہے لیکن اس سے قبل کسی بھی تحقیق میں دماغی فعل اور جسم کے مدافعتی نظام کے درمیان براہ راست تعلق کی بات وثوق سے نہیںہوئی۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے جذبات جسم کے ان نظاموں کے غلط یا صحیح طریقے سے کام کرنے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں جو ہماری صحت کے ذمے دار ہیں۔ اس سائنس داں کے مطابق اس تحقیق سے ایک ایسے دائرہ عمل کی نشاندہی ہوئی ہے کہ مثبت سوچ اچھی صحت کی ضامن ہے اور منفی سوچ صحت بگاڑنے کی ذمے دار۔
یہ تحقیق نیشنل اکیڈمی آف سائنسز کے رسالے میں شائع ہوئی ہے۔ اس سے کچھ دن پہلے پنسلوینیا کے تحقیق کاروں کا ایک تحقیقی مطالعہ بھی ایک طبی رسالے میں شائع ہوا تھا۔ اس میں تقریباً ساڑھے تین سو صحت مند افراد کو شامل کیا گیا اور تجربوں کے بعد نتیجہ نکالا گیا کہ خوش اور پرسکون افراد کو زکام کم ہوتا ہے اور اگر وہ بیمار بھی ہوتے ہیں تو علامات کی شدت نسبتاً کم ہوتی ہے۔ ان سائنسدانوں نے بھی یہ بات کہی کہ ذہنی کیفیت انسان کے مدافعتی نظام کو اچھے اور برے انداز میں متاثر کرتی ہیں۔ ان سائنسدانوں نے بھی یہی نتیجہ نکالا کہ زندگی میں اگر مثبت انداز فکر اختیار کیا جائے تو لوگوںکو متعدی امراض سے بچائو میں مدد ملتی ہے۔
مثبت اور منفی سوچ کے اثرات نہ صرف ہماری صحت پر پڑتے ہیں بلکہ اس کے اثرات ہمارے اردگرد رہنے والوں اور پورے معاشرے پر اثرانداز ہوتے ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 988
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں