کہاں ہیں ہماری وہ ”خیالی“ ناکامیاں ذرا اپنے کو کسوٹی پر پرکھنے تو دیں‘ مانا کہ تعلیم کم تھی‘ اقتصادی دشواریاں گلے پڑی ہوئی تھیں لیکن وہ وقت جو ہم نے اپنی قسمت پر آنسو بہانے میں گنوا دیا ہے وہ مزید تعلیم حاصل کرنے‘ اپنے کاروبار میں زیادہ معلومات بہم پہنچانے میںکیوں نہ صرف کیا گیا؟
آئیے! آج ہم بڑی سچائی ‘ بڑے خلوص سے یہ سوچیں کہ ہماری کتنی مصیبتیں ہماری وجہ سے مصیبتیں بنی ہیں اور ان کا قسمت سے کوئی تعلق نہیں ہے شکست کے بعد تو سب ہی بدبختی کے سر الزام تھوپ دیتے ہیں اور احساس شکست کو خدا کی مرضی کہہ کر تسکین پہنچاتے ہیں لیکن معاف کیجئے گا یہ اشرف المخلوقات کے شایان شان نہیں۔
کیا ہم میں اتنی ہمت ہے کہ ہم شکست یا ”خدا کی مرضی“ کو مورد الزام ٹھہرانے کے بجائے اپنی کوتاہیوں کا اعتراف کریں؟ زندگی کو کامیاب بنانا ہے تو اتنی ہمت پیدا کرنی ہی ہوگی کہ خود اپنا جائزہ لیا جاسکے۔ خیر اگر اب تک ہم ایسا نہیں کرسکے ہیں تو آئیے! آج سے شروع کریں اور شروع کرنے کی خاطر اپنی گزشتہ ناکامیوں سے متعلق کچھ سوچیں۔ اگر ہم نے واقعی کوشش کی ہوتی تو کیا وہ پورا کام نہ ہوا ہوتا۔ کیا اس ادھورے کام کی اور ہی شکل نہ ہوتی اگر اس کے متعلق خوب سمجھ بوجھ لیا ہوتا؟ کیا ہم کو اس بات کا اعتراف نہیں ہے کہ اگر ہم اپنی اندرونی طاقتوں کو کام میں لاتے تو آج صورت حال بدلی ہوئی ہوتی؟ کیا ہم اس سے بھی متفق ہیں کہ اگر ہمارے انداز مختلف ہوتے۔ یہ اشارے تو محض تجزیہ نفسی کو بیدار کرنے میں مدددیں گے کام کا پورا ہونا نہ ہونا تو ہم پر ہے۔
کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ اگر ہم خود اپنے کو اچھی طرح سمجھے ہوتے اپنی دماغی طاقتوں کو زنگ آلود نہ ہونے دیتے تو ہماری موجودہ زندگی کے کچھ اور ہی طور‘ ہمارے ماحول کی بے رنگی میں کچھ اور ہی رنگ ہوتے۔ لیکن جب ہم سے اپنی ناکامیوں کی وجہ پوچھی جاتی ہے تو اکثر اس قسم کے عذر لنگ ہماری زبانوں سے ادا ہونے لگتے ہیں۔
”مجھ کو کامیاب زندگی گزارنے کا موقع ہی کب ملا“
”ماں باپ نے تعلیم ہی کہاں دی تھی کہ کسی عہدہ پر فائز ہوتا“
لامحالہ مجھے جو بھی کام‘ جو بھی نوکری ملی‘ اسی کو غنیمت جان کر قانع ہوگیا اور چارہ ہی کیا تھا اور اب ا س دلدل سے نکلنے کی صورت ہی کیا ہے؟
ان وجوہ میں کتنی ہی سچائی کیوں نہ ہو لیکن رونا تو اس بات کا ہے کہ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ بالکل اتنے ہی تعلیم یافتہ اور ایسے ہی اقتصادی الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہزاروں افراد موجود ہیں جو آج ہم سے بہتر زندگی گزار رہے ہیں۔
اہمیت ان مواقع کی نہیں جو ہم کو ملتے ہیں سارا دارومدار ان مواقع پر ہے جو ہم خود پیدا کرتے ہیں۔ دیکھنے کی بات یہ نہیں ہے کہ ہم نے زندگی کیسے شروع کی۔ بلکہ دیکھنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم کہاں سے کہاں پہنچے ہیں۔
کہاں ہیں ہماری وہ ”خیالی“ ناکامیاں ذرا اپنے کو کسوٹی پر پرکھنے تو دیں‘ مانا کہ تعلیم کم تھی‘ اقتصادی دشواریاں گلے پڑی ہوئی تھیں لیکن وہ وقت جو ہم نے اپنی قسمت پر آنسو بہانے میں گنوا دیا ہے وہ مزید تعلیم حاصل کرنے‘ اپنے کاروبار میں زیادہ معلومات بہم پہنچانے میںکیوں نہ صرف کیا گیا؟ وہ یہ بھی تو دیکھیں کہ انہوں نے کبھی اپنے کام میں خواہ وہ کتنا ہی ذلیل کیوں نہ معلوم ہوتا ہو پوری دلچسپی نہیں لی اور مضحکہ خیز بات تو یہ ہے کہ انہوں نے کبھی اس دلدل سے نکلنے کی کوشش ہی نہیں کی۔
کسی کام کے وقت ہم میں دو قسم کے خیالات ابھرتے ہیں
”میں یہ کرسکتا ہوں“
”میں یہ کام نہیں کرسکتا“
وہ لوگ جو کام کو ختم کرنے کا ارادہ کرلیتے ہیں وہ بڑی سے بڑی دشواریوں کی بھی پروا نہیں کرتے۔ ہوسکتا ہے کہ کوئی یہ کہے کہ میں ہرجائی بننا چاہتا ہوں لیکن یہ ممکن ہی کب ہے۔ اور میرا خیال ہے کہ ہم سب کبھی نہ کبھی ایسا محسوس کرتے ہیں۔ حالات میں اتنی الجھنیں پیدا ہوجاتی ہیں کہ ان کو سلجھا کر کوئی کام پایہ تکمیل تک پہنچانا ناممکن ہوجاتا ہے۔ لیکن یہی اگر آپ ناممکن کو ممکن بنانے کیلئے اپنی تمام قوتوں کو اس مرکز پر مجتمع کرلیں تو ممکنات کا جادو چل جاتا ہے۔
اور یہی زندگی کا حال ہے ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ہمارے بیشتر شکوک ہم کو کامیابی سے محروم کردیتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے شکوک کو ہوا نہیں لگنے دیتے اور ناممکن کو ممکن بنانے کی مہم میں جم کر مقابلہ کرنے لگتے ہیں وہ کامیاب ہوکر رہتے ہیں۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 978
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں