میرے دوستو!میرا رب کہتا ہے کہ چلو اس کو یاد دہانی کرادو بھئی صبح نماز کیلئے ہمارے پاس آ جانا ۔اگر اور زیادہ عقلمند بننا چاہتا ہے اور زیاد ہ با شعور بننا چاہتا ہے پھر ایسا کر نیند کے اس لمحے میں جس لمحے میں نیند کی غفلت بھی ہوتی ہے اور نیند کا خمار بھی ہوتا ہے رات کاآخری پہر ہوتا ہے اس وقت بڑی لاجواب نیند آ تی ہے اس وقت اگر ہو سکے تو کھڑا ہو کے ہمارے سامنے رازو نیاز کر جسے ہم تہجد کہتے ہیں اور یاد رکھ یہ نفل ہیں اور تو نے ابھی فرض ادا کرنے ہیں ذرا نفل سے مشق کر لے۔ کہتے ہیں کہ فوج کی مشقیں ہو رہی ہیں‘ یہ چھوٹی موٹی مشقیں ہیں یہ اس لیے ہورہی ہیں کہ کل کو اگر جنگ ہوگئی تو اس کیلئے یہ مشقیں کام آئیں گی۔ یہ جونفل پڑھ رہا یہ مشق سچی مشق ہے لیکن اس سے ایک اور بڑی سچی مشق یہ ہے کہ فرض کا مقابلہ نفل نہیں کر سکتے۔ اس لئے فرمایا کہ تو فرضوں میں آنا چاہتا ہے اچھا ٹھیک ہے کوئی بات نہیں تو تہجد کے نفل پڑھنے کیلئے نہیں اٹھ سکا تو کوئی بات نہیں‘ پہلے دور رکعت نماز سنت پڑھ لے ۔ اب دیکھیں فجر کی سنتیں لازم قرار دی گئی ہیں کیونکہ تو نے صفت صلوٰةکی زندگی کو حاصل کرنا ہے لہٰذا اب نماز دھیان والی ہوگی اور سارا دن تو نے گزارنا ہے آج پہلے ذرا دو رکعت نماز سنت پڑھ لے اور سنتوں میں تیرا دھیان ہر ہر رکن پر ہے اور ہر ہر رکن تو اپنی مرضی نہیں کررہا‘ اللہ جل شانہ کے حکم اور حضور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے طرےقے سے کررہا۔ یاد رکھ !اب اپنے اوپر ترس کھا۔
چھوٹی سی مشق
تیری اب صبح اس لئے کی ہے کہ تو اپنا کام کر لیکن دیکھ کام کرنے سے پہلے یہ ذہن میں رکھ لے وہاں ہمیں نہیں بھولنا۔ آجا پھر نماز کیلئے صبح صبح تیری ذرا تھوڑی سی مشق کرالیں‘ کہیں تھوڑی سی رات کو غفلت ہوگئی ہوگی اب صبح مشق کرلے جیسے نماز میں تو ہماری طرف متوجہ تھا اور نماز کے ہر رکن میں متوجہ تھا‘ نماز کی ہر حالت میںمتوجہ تھا‘ ایسے ہی زندگی کے ہر رکن‘ میں زندگی کی ہر حالت میں‘ خواہ وہ گھر کی زندگی‘ بستر کی زندگی‘ دفتر کی زندگی‘ بیت الخلا کی زندگی‘ بیت اللہ کی زندگی‘ زمین‘ دکان اور بازار کی‘ کھانے پینے کی اور دستر خوان کی‘ زندگی ہے ویسے ہی نماز کے ہر رکن میں تو نے ہمیں جس طرح یاد رکھا تھا یہاں بھی ہمیں یاد رکھنا‘ وہاں بھی تو ایک کی مان کر چلا تھا یہاں بھی ایک کی مان کر چلنا‘ وہاں تو نے من چاہی کو چھوڑا تھا‘ دل میں آ رہی تھی کہ سجدے تین چار دے دوں مزہ آ رہا یا تھکا ہو تو ایک سجدہ دے دوں وہاں (نماز میں ) تو نے اپنی مرضی نہیں کی‘ دیکھ نماز کے باہر کی زندگی میں بھی اپنی مرضی نہیں کرنا۔ یہ صفت صلوٰة ہے اچھا اب سارا دن اللہ پاک نے کام میں بھیجا اب نصف النہار ( آدھا دن ) ہوگیا۔
اللہ پاک نے فرمایا اچھا کوئی بات نہیں شاید تو پھر بھول گیا ہو آجا!! ظہر کی نماز کے وقت۔ پھر نماز میں بلایا اور پھر وہ احکامات یاد دلائے کہ تو نے جیسی نماز میں زندگی گزارنی ہے‘ نماز کے بعد جب سجدے سے نکلے گا جس طرح تو نے تنکوں والی (مسجد کی ) ٹوپی کو دور پھینکا ایسا نہ کرنا کہ صفت صلوٰة کو بھی دور پھینک دے پھر کہنا نماز نماز ہے یہاں ( دکان ، کاروبار ) اور ہے نہیں جس طرح نماز میں تیری مرضی نہیں چلی‘ نماز کے بعد بھی تیری مرضی نہیں چلے گی۔ خیال کرنا مومن نماز کے بعد بھی اللہ کا ہوتا ہے‘ مومن کو نماز کیلئے بار بار بلایا ہی اس لئے جارہا کہ شاید اپنا سبق بھول گیا ہو اب کہنے لگے ظہر پڑھ لی ہے اب عصر کا وقت ہے اب فرشتوں کی ڈیوٹیاں تبدیل ہو رہی ہیں ہم چاہتے ہیں کہ ایسے وقت میں تیرے اعمال پیش ہوں جس وقت تو غفلت میں نہ ہو‘ ہمارے ساتھ محبت میں ہو توجہ ہو اب عصر کیلئے بلایا پھر مغرب کا وقت ہوا اب پھر بلا لیا دیکھ خیا ل کرنا اب دن ڈوب گیا ہے اور رات آ نے والی ہے پھر اس (رات) میں ذرا خیال کرنا‘رات بھی تیری نہیں ہے‘ رات بھی ہماری ہے۔ ارے مومن کا کوئی بھی لمحہ اس کا (مومن کا) تو ہوتا ہی نہیں ۔
ایک صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ہمارے پاس اللہ کے عذاب کو‘ اللہ جل شانہ کی ناراضگی کو رکوانے کیلئے ایک چیز تھی اور وہ تھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات با برکات تھی جس کی وجہ سے اللہ کے عذابات ہم سے ٹلے رہے اور سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد جو چیز ہے وہ ہے استغفار اور اس کو پھر یوں فرمایا کہ ہمارے پاس دو نجات کی صورتیں ہیں ایک نجات سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کی ہستی اور دوسرا استغفار۔ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے پر دہ فرمانے کے بعد ہمارے پاس جو چیز بچی ہے وہ چیز ہے استغفار ۔آیت کریمہ پر ذرا غور کریں یہ سارے کا سارا استغفار ہی تو ہے اور کیا ہے اللہ جل شانہ کی عظمت اور اللہ کی کبریائی اور اللہ پاک کی بڑائی کو بیان کیا لا الہ کوئی الہ ہے ہی نہیں‘ مشکل کشا‘ حاجت روا‘ دینے والا ساری کائنات کو‘ ہم سارے منگتے وہ سب کا داتا‘ لاالہ الا انت سبحانک تو پاک ہے سارے عیب ہمارے اندر تیرے اندر کوئی عیب ہے ہی نہیں اور ہم سب سے بڑے ظالم ہیں۔
سب سے بڑا ظالم کون
انی کنت من الظلمین میں سب سے بڑا ظالم ہوں۔ ظالم کہتے اسے ہیں جو چیز جس کیلئے بنی ہو اس کیلئے ہی استعمال ہو۔ اب ایک بندہ بندہ ٹوپی سے جوتا صاف کر رہا ہے‘ اب ٹوپی تو جوتے کیلئے بنی ہی نہیں تم نے اس سے جوتا صاف کرنا شروع کر دیا‘ یہ جسم ‘یہ تن تو” وما خلقت الجن و الانس الا لیعبدون “عبادت کیلئے بنا تھا اللہ جل شانہ کی بندگی کے لئے بنا تھا اس جسم کو کسی اور مشغلے کیلئے استعمال کرنا یہی تو ظلم ہے ۔ سرور کونین صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے ظالموں کیلئے بھی دعا کی ہے مزدلفہ کی رات اور صبح آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں دعائیں فرماتے رہے اور امت کے ظالموں کیلئے بھی دعا فرمائی اور امت کا دنیا اور کائنات کا سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ یہ جسم جس کے لئے بنا تھا جس نے بنایا تھا اس کے لئے استعمال نہیں ہو رہا۔ دیکھو دوستو! ایک ہے جان بنانے کی محنت‘ ایک ہے ایمان بنانے کی محنت‘ یہ دو منفرد محنتیں ہیں یہ دو منفرد کوششیں ہیں‘ جان بنانے کیلئے کتنی کوشش کی جاتی ہے کتنی محنت کی جاتی ہے۔
درس سے فیض پانے والے
محترم حکیم صاحب !اسلام علیکم! اللہ آپ کو سدا خوش رکھے اور آپ کے علم وعمل میں برکت عطا کرے۔ میرے ایک عزیز دوست مجھے جمعرات کے درس میں لے کر آئے‘ واقعی جس طرح انہوں نے بیان کیا تھا اس سے بڑھ کر پایا۔ پہلے تو صرف ان کی خوشنودی کیلئے آیا تھا لیکن جیسے جیسے درس سنتا گیا میرا دل نرم ہوتا گیا اور پھر توجہ سے سننے لگا۔ اب الحمدللہ! کافی عرصہ سے مستقل شرکت کررہا ہوں اور میری زندگی میں اس نورانی اور بابرکت درس کے بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے ہیں اور میری پوری زندگی شریعت کے مطابق ڈھل گئی ہے۔ پہلے تو میں فرض نماز بھی نہیں پڑتا تھا اور نہ ہی ذکرو اذکار کرتا تھا۔ اگر کبھی ذکر کی کوشش بھی کرتا تھا تو زبان بند رہتی تھی اور توجہ نہیں بنتی تھی اب الحمدللہ ہر وقت میری زبان پر ذکر ہوتا ہے اور میرا دھیان قبر اور آخرت کی طرف متوجہ رہتا ہے۔ میری زندگی کے دن رات مکمل تبدیل ہوچکے ہیں۔ آپ کیلئے میرے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ میرا کوئی بھی مسئلہ ہو میں اس درس کی دعا میں اس کے حل کیلئے دعا کرتا ہوں تو میرا مسئلہ حل ہوجاتا ہے۔ اللہ پاک مجھے ہمیشہ اس محفل سے جوڑے رکھے۔(شکیل ‘ لاہور)
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 937
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں