199ہجری میں عبداللہ بن زیاد کے چند قریبی عزیز خلیفہ المامون عباسی کے دربار میں پیش کیے گئے۔ ان میں سے ایک محمد نامی بھی تھا جو عبداللہ بن زیاد کا پوتا تھا۔ امویوں اور عباسیوں کا سلسلہ مخالفت اب تک مسلسل جاری تھا۔ خلیفہ مامون عباسی نے محمد بن زیاد اور اس کے ہمراہی دوسرے قیدیوں کے حسب و نسب کے بارے میں کچھ سوالات کئے اور کافی چھان بین کے بعد یہ حکم جاری کیا کہ محمد بن زیاد اور اس کے ایک ہمراہی کو موت کے گھاٹ اتار دیاجائے۔ اپنے قتل کا حکم سن کر ابن زیاد خلیفہ سے مخالفت کرتے ہوئے بولا امیر المومنین! میں نے تو سنا تھا کہ آپ ایک حلیم اور بردبار انسان ہیں آپ کسی بے گناہ کو کبھی نہیں ستاتے لیکن اب پتہ چلا ہے کہ میں نے آپ کے جو اوصاف سنے تھے ، وہ یکسر غلط تھے۔ کسی نے خواہ مخواہ آپ کی تعریف کی تھی۔ اگر آپ میری بداعمالیوں کی بنا پر مجھے موت کے گھاٹ اتارنا چاہتے ہیں تو آج تک مجھ سے کوئی ایسی خطا سرزد نہیں ہوئی جس کی پاداش میں میرا قتل درست قرار پائے، نہ میں نے آپ کے خلاف بغاوت کی ہے اور نہ آپ کی حکومت کے خلاف کوئی خفیہ سازش کی ہے، نہ میں آپ کی اطاعت سے منکر ہوا ہوں ، پھر میں یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ آپ مجھے میرے کس جرم کی سزا میں قتل کرا رہے ہیں۔ اگر آپ مجھ سے اس ظلم و ستم کا انتقام لینا چاہتے ہیں جوامویوں نے اپنے دور حکومت میں عباسیوں پر کئے تھے تو آپ کو قرآن کی اس آیت پر غور کر لینا چاہیے جس میں واضح الفاظ میں کہا گیا ہے کہ (ترجمہ) ”کوئی شخص کسی دوسرے کے گناہوں کا بوجھ اپنے سر پر نہ اٹھائے گا“۔
قرآن پاک کے اس ارشاد کے سامنے خلیفہ مامون عباسی نے اپنا سر جھکا دیا گو وہ نصف دنیا سے زائد پر حکمران تھا اور ایک زبردست بادشاہ تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے اس حکم نے اسے نہ صرف اپنی خطا کا اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا بلکہ اس نے ابن زیاد کی اس جرات و بے باکی کو بھی سراہا اور اپنے وزیر ابوالعباس الفضل ابن سہل کو حکم دیا کہ ابن زیاد اور اس کے سارے عزیزوں کو شاہی مہمان سمجھ کر عزت و احترام کا مستحق سمجھا جائے اور ان کی خاطر و مدارات کی جائے۔
کچھ عرصہ بعد جب یمن میں عربوں نے بغاوت کی تو خلیفہ مامون عباسی نے ابن زیاد کو یمن کا امیر مقرر کرکے باغیوں کی سرکوبی کیلئے بھیجا‘ ابن زیاد نے یمن پہنچ کر عربوں کو جنگ میں شکست فاش دی اور ملک یمن کا انتظام اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ بعد میں 247ھ میں المتوکل کے تتل اور 252ھ میں المستعین کی تختِ خلافت سے معزولی کے بعد زیاد نے اپنی خود مختار ی کا اعلان کر دیا اور یمن میں بہت عرصے تک ان کی مستقل حکومت قائم رہی۔ احمد بن ابی داﺅد قاضی نے روایت کی ہے کہ مجھے موت کے دروازے پر تمیم بن جمیل خا رجی سے زیادہ کوئی بے خوف اور بہادر شخص نظر نہیں آیا اس نے خلیفہ معتصم باللہ عباسی کے خلاف بغاوت کی تھی۔ گرفتاری کے بعد قیدی کی حیثیت میں خلیفہ کے سامنے پیش کیا گیا تو یہ دربار عام کا دن تھا۔ خلیفہ معتصم مسند خلافت پر بیٹھا تھا اور دربار میں عوام اور خواص موجود تھے۔ معتصم نے تلوار اور نطع (چمڑے کا وہ ٹکڑا جس پر قتل کے وقت بٹھا کر مقتول کی گردن مارتے تھے تاکہ اس کا خون زمین پر نہ گرے) لانے کا حکم دیا‘ دونوں چیزیں لائی گئیں۔ معتصم نے اگلا حکم دیا کہ اسے نطع پر بٹھا کر اس کا سر قلم کر دیا جائے۔
پھر خلیفہ نے دیکھا تو تمیم بن جمیل خارجی قتل ہونے کیلئے بڑی لاپرواہی کے ساتھ نطع کی طرف جارہا تھا۔ اس کے چہرے پر خوف و دہشت کا ذرا سا بھی اثر نہ تھا اور وہ یوں خراماں خراماں چلا جارہا تھا جیسے کسی چمن زار کی سیر کررہا ہو۔
خلیفہ کو تمیم بن جمیل خارجی کی اس بے خوفی نے متاثر کیا تو اس نے گفتگو سے اس کے علم و دانش کا اندازہ کرنے کیلئے پوچھا‘ ”تمیم تمہیں اجازت ہے کہ اپنی برات کیلئے کوئی عذر پیش کرنا چاہو تو کرو‘ تمہارا عذر معقول ہوا تو تمہیں باعزت طور پر بری کر دیا جائے گا۔“
تمیم بن جمیل خارجی نے خلیفہ کی بات کے جواب میں یہ شعر پڑھا:
ترجمہ” تلوار اور نطع کے درمیان مجھے موت دکھائی دے رہی ہے۔ وہ مجھے گھور رہی ہے لیکن میں اس سے خوفزدہ نہیں ہوں۔“
”مجھے علم ہے کہ آج میرا قتل کا دن ہے اور تو مجھے قتل کرنے کاپکا عزم اور ارادہ رکھتا ہے لیکن رب لایزال نے جو فیصلہ کیا ہوا ہے بندہ کی قدرت میں اس فیصلہ کو بدلنے کی طاقت نہیں ہے“
”ایسا کوئی شخص ہے جو اس موقع پر دلیل اور حجت کا سہارا ڈھونڈے جب موت کی ننگی تلوار اس کی آنکھوں کے سامنے چمک دمک رہی ہو؟
”میں موت سے قطعی خوفزدہ نہیں ہوں کیونکہ میں واقف ہوں کہ وقت سے پہلے موت نہیں آسکتی؟“
خلیفہ معتصم باللہ عباسی نے یہ سنا تو رونے لگا۔
اس کے بعد اس نے تمیم بن جمیل خارجی کو معافی بھی دے دی اور پچاس ہزار درہم انعام بھی دیا۔
مجھے ہیرو ں والا چاہیے
ایک دفعہ سلطان محمود غزنوی ایک میدان میں کھڑا تھا اس نے اپنے لاڈلے غلام ایاز جسے وہ بیٹوں کی طرح عزیز رکھتا تھا آزمانے کیلئے اپنی فوج کے جرنیلوں اور غلاموں کے آگے ہیرے اور جواہرات پھینکے اور خود سلطان آگے بڑھ گیا۔ تھوڑی دور جاکر اس نے دیکھا کہ ایاز اکیلا ہی اس کے پیچھے آرہا ہے اور دوسرے جرنیل اور غلام ہیرے چن رہے ہیں۔ سلطان نے ایاز سے پوچھا کیا تم کو ہیرے موتی نہیں چاہئیں تو ایاز نے جواب دیا جن کو ہیروں کی ضرورت تھی وہ ہیرے چن رہے ہیں اورمجھے ہیرے نہیںہیروںوالا چاہیے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں