بیٹی کی دکھوں بھری زندگی میں والدین کا کردار
زندگی کے چالیس سال میرے پاس صرف دکھیارے‘ غم کےمارے‘ پریشان‘ ناکام اور مسائل کے الجھے لوگ ہی آئے ہیں‘ خوشحال اور مطمئن فرد شاید ملاقات میں کم ہی آیا ہو۔ شادی کے بعد جھگڑے‘ پریشانیاں‘ ناچاقیاں‘ مشکلات حتیٰ کہ طلاق تک نوبت ۔اس کی وجہ کیا ہے؟ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ کون ساس‘ بہو‘ شوہر‘ سسرالی‘ معاشرہ ‘آخر اس کا کون ذمہ دار ہے؟
اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو میں کہوں گا ماں باپ اس کے ذمے دار ہیں۔ پہلے دن سے ماں باپ بچے سے پوچھتے ہیں بڑا ہوکر کیا بنے گا؟ اس کے ذہن میں ایک چیز اور ایک تصور شامل کرتے ہیں کہ وہ مالدار‘ دولت مند‘ بڑا عہدہ‘ لوگ اس کے غلام ہوں گے‘ کوئی گاڑی کا دروازہ کھولے گا‘ کوئی دفتر کا دروازہ کھولے گا‘ کوئی کرسی گھسیٹ کر دے گا اور اگر بیٹی ہے تو وہ گھر کی رانی ہوگی‘ اس کے سامنے سب نوکرانیاں ہوں گی‘ وہ اپنے مزاج سے اٹھے گی‘ بیٹھے گی‘ سوئے گی‘ جاگے گی‘ اس کی من مانی ہوگی‘ اس کی چاہت ہوگی بس وہی سب کچھ ہوگی۔
ایک سمجھدار خاتون کی نصیحت
1۔ ماں باپ بیٹی کو گھر کا کام۔ 2۔ سہنا اور برداشت کرنا۔ یہ دو چیزیں نہیں سکھاتے‘ یہی سے شادی کے آغاز سے ہی سسرالی ٹکراؤ شروع ہوتا ہے‘ پھر ایسا ٹکڑاؤ کہ جو ساری زندگی یا پھر طلاق کی شکل میں ختم ہوتا ہے۔ آخر یہ ٹکراؤ کیوں ہے؟ کیا ہر چیز جادو‘ جنات‘ نظربد ہے؟
میں اس کا انکار نہیں کررہا‘ لیکن کچھ انسانی رویے لہجے اور زندگی کا اتار چڑھاؤ بھی ہماری زندگی پر اثر انداز ہوتا ہے اور سب سے زیادہ جو چیز اثر انداز ہوتی ہے بیٹی کو گھر کاکام نہیں کروایا جاتا۔ ایک سمجھدار خاتون کے یہ الفاظ میرے کانوں میں پہنچے کہ’’ بیٹی کوگھر کا اتنا کام کراؤ اتنا کام کراؤ‘‘ جو نہیں کروانا وہ بھی کراؤ‘ اس کے دو فوائد ہوں گے:۔
1۔ جب بستر پر سر رکھے گی اس کےذہن میں منفی اور غلط خیالات نہیں آئیں گے‘ وہیں سوجائے گی۔ 2۔سسرال میں جاکر خدمت کےنام پر رانی بنے گی‘ دلوں پر‘ جذبوں پر حکمرانی کرے گی‘ ورنہ اگر گھر کاکام نہ آیا اوربہت اچھی یونیورسٹیوں اور بیرون ممالک کی ڈگریاں لے کر گئی تو ساری زندگی طعنے سنتے اور مشکلات میں کٹ جائے گی۔
اب طلاق کے علاوہ کوئی راستہ نہیں!
ایک خاندان والوں نےبہو کی ڈگریاں نکالیں‘ ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہنڈیا میں ڈالیں‘ ہنڈیا میں پانی ڈالا اور اس کو پکایا اور وہ ہنڈیا ساری اس کے گھر والوں کو بھجوادی اور کہا کہ بیٹی نے سالن پکایا ہے آپ بھی کھائیں اور بیٹی کو بھی کھلائیں۔ ہمیں خودآپ کی بیٹی کو پکا کر کھلانا پڑتا ہے‘ دھو کر پہنانا پڑتا ہے‘ اس کو اٹھانا پڑتا ہے۔ آپ نے ہمیں بہو کیا دی‘ ایک وبال ‘ مصیبت اور ایک پریشانی دی ہے۔ یہ مصیبت ہمارے اوپر ایسی پڑی ہے کہ اب سوائے طلاق کے کوئی راستہ نہیں یا پھر آپ کی بیٹی بدل جائے مگر وہ بدل نہیں سکتی۔ زندگی کے اٹھارہ سے بائیس سال کہاں گزارے؟ کن جذبات اور کن سوچوں اور کس مزاج کے ساتھ گزارے۔ اب صورتحال کیا ہے؟ کیا کیا جائے؟ کیسے کیا جائے؟
آئیں !اپنی نسلوں کو یہ چیز سکھائیں!
الغرض طلاقیں‘ بڑھتے ہوئے جھگڑے اور الجھتے ہوئے مسائل کی بنیادی وجہ تربیت کی کمی اور برداشت کی کمی ہے۔ اگر آپ اپنے خاندان کے یا اردگرد کے جتنے بھی لوگ دیکھیں گے جن کے گھروں میں جھگڑے‘ لڑائیاں‘ پریشانیاں اور ناچاقیاں ہوں تو آپ کو میری بات یقیناً سوفیصد محسوس ہوگی۔ ان طلاقوں اور جھگڑوں کے پس پردہ دراصل تربیت کی کمی اور برداشت کی کمی ہے۔ آئیں! اپنی نسلوں کو یہ چیز سکھائیں۔ روز سکھائیں لیکن محبت ‘پیار‘ نرمی سے‘ سختی سے ہرگزنہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں