آج عبقری قارئین کی خدمت میں ایک عبرتناک واقعہ پیش کر رہی ہوں تاکہ لوگ اس سے نصیحت حاصل کریں۔
وہ شخص آگ بگولاہو گیا
ہمارےجاننے والوں میں ایک گھر تھا جہاں ایک شخص کو کبوتر بازی کا بہت شوق تھا ‘اسی مقصد کے لئے اس نے کچھ کبوتر پال رکھے تھے ۔ان کے لئے باقاعدہ ایک بڑا پنجرا تیار کر رکھا تھا۔گھر میں بلیاں بھی تھیں لیکن وہ باقاعدہ ان کی حفاظت کرتا تاکہ کبوتروں کو کسی بھی قسم کا کوئی نقصان نہ پہنچے۔ایک بار اس شخص نے معمول کے مطابق کبوتروںکو دانہ وغیرہ ڈالا لیکن پنجرے کے دروزے کو بند کرنا بھول گیا۔اگلے دن جب دوبارہ کبوتروںکو دیکھنے کے لئے گیاتو چھت پر چند کبوتروں مرے ہوئے دیکھے جنہیں دو بلیاں کھا رہی تھیں۔وہ شخص آگ بگولا ہو گیا اور بلیوں کو پکڑنا چاہامگر وہ بھاگنے میں کامیاب ہو گئیں۔اس دن وہ کبوتر باز بہت پریشان اور غصے کی کیفیت میں تھا مگر بلیاں ہاتھ نہ آئیں۔مگر اگلے ہی دن گھر میں اس کے علاوہ کوئی نہ تھا‘ گھر کو خالی دیکھ کر وہ دونوں بلیاں ایک کمرے میں چلی گئیں۔کبوتر باز نے موقع کی مناسبت کے مطابق اپنے ساتھ ایک اور جاننے والے قریبی رشتہ دار کبوتر باز کواپنے ساتھ شامل کیا‘ دونوں کمرہ میں داخل ہو ئے اور دروازہ بند کر دیا۔
چیخ و پکار
کافی کوششوں کے بعد انہوں ان دونوں بلیوں کو پکڑ لیا‘ دونوںکبوتر بازوں نے ڈنڈوں سے بلیوں کو اتنا مارا کہ وہ بلیاں تڑپ تڑپ کے مر گئیں۔اس دوران بلیاں بہت زیادہ چیختیں رہیں مگر ان کبوتر باز وں کو بے زبان مخلوق پر ذرا ترس نہ آیا اور انہیں ختم کر کے ہی دم لیا۔جن کبوتر بازوں نے بلیوں کو مارا وہ کوئی عام فرد نہیں تھے بلکہ ان کی کروڑوں کی جائیداد اور پیسوں کی بھر مار تھی مگر اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعدان بلیوں کی آہ و تڑپ ایسی لگی کہ رُت ہی بدل گئی۔ مکافات کا ایسا نظام چلا کہ چند ہی ہفتوں میں کچھ ایسے ناگوار مسائل کا سامنا ہوا کہ انہیں اپنی کروڑوں کی جائیداد کوڑی کے داموں فروخت کرنی پڑی۔اس کے علاوہ ان کا شہر میں ایک کاروبار تھا جو سالہا سال سےترقی وکامیابی کی منزلیں طے کر رہا تھا وہ بھی زوال پذیر ہونے لگا اور کچھ ہی عرصہ میں کاروبار بھی ختم ہو گیا۔انہیں ماہانہ مکان وغیرہ کے صرف کرایوں کا لاکھوں روپے اکھٹا ہو جاتا تھا مگر بے زبان جانوروں کی آہیں ایسی لگیں کہ آج تمام بہن بھائی کرایہ کے مکان میں رہنے پر مجبور ہیں۔
گھر بار سب کچھ لُٹ گیا
مکافات کا یہ سلسلہ یہی پر ختم نہیں ہوا‘جس شخص کے کبوتر تھے اس کی بیوی لاعلاج مرض میں مبتلا ہوئی اور شادی ناکام ہو گئی۔پھر دوسری شادی کی مگر کچھ عرصہ بعد دوسری بیوی کو بھی کینسر کا مرض لاحق ہو گیا‘اس کا علاج کرواتا رہا مگر وہ شفایاب نہ ہوئی بلکہ وہ دماغی مریضہ بھی بن گئی جس سے اس کبوتر باز کی زندگی تباہ ہو گئی۔دوسرا شخص جس نے اس کبوتر باز کا ساتھ دیا وہ آج تک اولاد کی نعمت سے محروم ہے۔اس نے بہت علاج کروائے مگر کوئی فائدہ نہ ہوا اور آخر کار اس کی بیوی نے بھی اسے چھوڑ دیا۔ان دونوں کی بہنیں مختلف بیماریوں میں مبتلا ہیں ‘کوئی پُرسان حال نہیں۔جس گھر میں وہ رہتے ہیں وہاں ایسی نحوست ہے کہ اگر کوئی کمرے میں داخل ہو جائے تو ایسی گھٹن محسوس ہوتی ہے جیسے کوئی جیل یا قید خانہ میں آگیا ہو۔آج ان کے خاندان میں فقر و فاقہ‘بیماریاں اور پریشانیاں ہیں۔جیسے بلیوں نے سسک سسک کر جان دی آخر ایسے ہی وہ ظالم کبوتر بازتڑپ تڑپ کر مر گیا۔جو دوسرا شخص اس ظلم میں شامل تھا وہ بھی زندگی اور موت کی کشمکش میں ہے۔
یہ واقعہ ہم سب کیلئے ایک سبق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بنائی ہوئی مخلوق پر ظلم کرنے سے باز رہیں کیونکہ حدیث کا مفہوم ہے کہ ’’مظلوم کی بد دعاء سے بچا کرو، اگرچہ وہ کافر ہی ہو، کیونکہ اس کی دعا ( یعنی بددعا)میں کوئی چیز حائل نہیں ہوتی ‘‘(مسند احمد)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں