بعض اوقات انسان کی زندگی میں کچھ ایسے مسائل اور پریشانیاں آتی ہیں جن سے وہ اتنا بری طرح متاثر ہوتا ہے کہ زندگی سے مایوس ہوکر موت کی آرزو کرنا شروع کر دیتا ہے۔ایسا ہی معاملہ آج سے چند سال قبل میرے ساتھ پیش آیا جسے میں آج تک فراموش نہیںکر سکا۔
زندگی کا چین و سکون لٹ گیا
مجھے آج بھی وہ دن یاد ہے جب میرے میٹرک کے امتحانات قریب تھے ‘میں دمہ اور سانس کی الرجی کا شکار ہو گیا۔گھر سے باہر نکلتا تو ٹریفک کا دھواں جیسے ہی ہلکا سا ناک میں پڑتا تو سانس کی تکلیف شروع ہو جاتی ‘سانس لینا دشوار ہوجاتا۔ رات کو جب سونے کے لئے بستر پر لیٹتا تو کھانسی شروع ہو جاتی ۔ڈاکٹر کو معائنہ کروایا تو انہوں نےکچھ ادویات لکھ دیں۔میں نے باقاعدگی کے ساتھ اور ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق ان ادویات کا استعمال کیا مگر رتی برابر بھی فرق محسوس نہ ہوا بلکہ مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔میری حالت دن بدن خراب سے خراب تر ہوتی چلی جارہی تھی۔ اب حالت یہ تھی کہ اگر کوئی گھر میں ہلکی سی ڈسٹنگ صفائی وغیرہ کر رہا ہوتا تو فوری طور پر سانس کی تکلیف شروع ہو جاتی اور کافی دیر بعد جا کر حالت سنبھلتی۔رات سوتے وقت اب کھانسی اس قدر شدید شروع ہو گئی کہ سر اور پورے جسم پر بری طرح کچھائو محسوس ہوتا۔اس مرض نے مجھے اس قدر مجبوراور بے بس کر دیا کہ میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرنے لگ گیا کہ مالک یا تو شفاء دے یا پھر مجھے موت دے دیں۔اس بیماری کی وجہ سے میرے ساتھ گھر والوں کی نیندیں بھی اڑ چکی تھیں‘ والدہ ساری رات میرے سرہانے بیٹھ کر گزارتیں۔ پڑھائی بھی بری طرح متاثر ہو رہی تھی‘بہت مشکل حالات میں امتحانات دئیے‘ قسمت نے ساتھ دیا اور میں پاس ہو گیا۔
ملک چھوڑ دو یا گھر پر محصور ہو جائو
اسپشلسٹ ڈاکٹر سے معائنہ کروایا تو انہوں نے اسلام آباد کے ایک معروف ہسپتال سے علاج کروانے کا مشورہ دیا۔وہاں علاج شروع ہوا ‘ ہر ماہ ویکسینشن ہوتی‘ادویات کا ڈھیر کھانا پڑتا جن کا ماہانہ خرچ ستر سے اسی ہزار روپے تھا۔ان ادویات کے اثرات کی وجہ سےسارا دن غنودگی چھائی رہتی جس وجہ سے جسم سستی کا شکار ہو چکا تھا‘ کوئی بھی کام ٹھیک طریقے سے نہیں کر پاتا تھا‘مہنگے علاج کے باوجود بھی مستقل شفایاب نہیں ہو پارہا تھا۔سترہ سال کی عمر تھی مگر سانس کی تکلیف کی وجہ سے ستر سال کے بوڑھوں کی طرح حالت ہو چکی تھی‘انہیلر استعمال کرنے کا عادی ہو چکا تھا۔آخر ڈاکٹروں نے مشورہ دیا کہ اگر اس بیماری سے بچنا چاہتے ہو تو تمہارے پاس دو حل ہیں‘ ایک یہ کہ ستمبر سے مارچ تک گھر سے باہر نہ نکلو( ان ماہ میں مسئلہ شدت اختیار کرجاتا تھا ) یا دوسرا طریقہ ہے کہ کسی ایسے شہر یا ملک میں منتقل ہو جائو جہاں آلودگی کا نام و نشان موجود نہ ہو۔میرے لئے ان دونوں طریقوں پر عمل کرنا نا ممکن تھا اور نہ اتنے وسائل موجود تھے کہ گھر بیٹھ کر گزارہ کروں یا بیرون ملک چلا جائوں۔چار سال مسلسل اس اذیت ناک حالت میں مبتلا رہا۔
ایک مخلص کا مشورہ کام آگیا
میرے ایک دوست حکمت کے شعبہ سے وابستہ تھے۔ ایک دن ان سے اپنی بیماری اور تکلیف دہ کیفیت کا ذکر کیا تو انہوں نے نہار منہ بانس کا مربہ کھانے کا مشورہ دیا۔میں نے ان کی بات پر زیادہ توجہ نہ دی ‘ میں نے سوچا جہاں اتنے مہنگے علاج کروا رہا ہوں ان سے افاقہ نہ ہوا تو صرف ایک مربہ کھانے سے کیسے شفاء مل سکتی ہے۔انہوں نے میری کیفیت کو بھانپ لیا اور کہنے لگے کہ چند دن یہ نسخہ استعمال کر کے دیکھ لو اگر افاقہ نہ تو چھوڑ دینا۔میں نے پنسار کی دکان سے بانس کا مربہ خریدا اور نہار منہ چند پھانکیں کھانا شروع کردیا۔ایک ہفتہ مسلسل استعمال سے طبیعت میں کچھ افاقہ محسوس ہوا جس سے کچھ امید پیدا ہوئی۔رات کے وقت کھانسی کا جو طوفان آتا تھا وہ تھمنا شروع ہو گیا۔میں نے مربہ کا استعمال جاری رکھا‘تقریباً چار ہفتے مسلسل کھانے سے میں بالکل تندرست ہو گیا۔سانس کی الرجی اور دمہ کی بیماری کا نام و نشان بھی ختم ہو گیا۔اس بات کو سالہا سال گزر چکے ہیں‘اب ٹریفک کا دھواں ہو ‘سخت سے سخت سردی کا موسم ہو‘ الحمدللہ میری طبیعت ٹھیک رہتی ہے نہ کھانسی کا مسئلہ اور نہ ہی سانس کی تکلیف ہوتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں