سیکھنے والاہمیشہ کامیاب ہوتا ہے
کسی نے پوچھا کہ دنیا کا خوش قسمت ترین انسان کون ہے؟ کہا: جو ماں‘بیوی اور بہنوں کے ساتھ توازن قائم کرکے دکھائے‘ جو کہ ناممکن نہیں مگر تھوڑا مشکل ضرور ہے‘ توازن کیسے پیدا ہوگا؟ دونوں کی سننا پڑے گی‘ دونوں کی سہنا پڑے گی‘پھر جاکر توازن قائم ہوگا۔ اس توازن کو ہم سنبھالیں گے کیسے؟ اس کو سوچیں گے کیسے؟ یہ بہت اہم موضوع ہے۔
آئیں! میں اس کے کچھ گُر بتاتا ہوں‘ جو میں بھی سیکھ رہا ہوں آپ بھی سیکھیں‘ سیکھنا بہت ضروری ہے اور سیکھنے والا ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔
ایسی باتیں جن کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں
بہترین انسان وہ ہے جو دونوں طرف کی سنے لیکن ٹھنڈے دل سے‘ غصہ سے نہیں کیونکہ کچھ باتیں ایسی ہوتی ہیں جن کا حقیقت میں کوئی وجود ہی نہیں ہوتا اور وہ صرف اپنے ثبوت کو مضبوط کرنے کیلئے اور حیثیت کو سچا بتانے کیلئے بڑھا چڑھا کر بیان کی جاتی ہیں۔ سننا ضرور ہے‘ جھوٹا نہیں کہنا اور سب کو ساتھ لے کر چلنا ہے‘ بیوی کو بھی‘ماں کو بھی‘ بہنوں کو بھی اور رشتہ داروں کو بھی۔ یہ جذباتی انسان کا کام نہیں ہے‘ یہ صرف اس بندے کا کام ہے جو ٹھنڈے دل سے سارے نظام کو لے کر چلے‘ سخت مزاج بندہ یہ کام کبھی نہیں کرسکے گا‘ بازی ہار جائے گا نفع کی بجائےنقصان ہوگا‘ خدمت بھی کرے گا لیکن بیوی اور والدین کی طرف سے صلہ نہیں ملے گا۔ اگر میاں بیوی کے جھگڑے بڑھ گئے تو ایسی صورت حال میں اولاد میں دو گروہ بن جائیں گےکچھ میاں یعنی والد کے ساتھ اور کچھ بیوی یعنی ماں کے ساتھ‘ کیونکہ اولاد دیکھ دیکھ کر زندگی گزارتی ہے۔
ٹھیلہ لگانے والامالدار آدمی بن گیا
میرے سامنے ایک گھرانہ ہے ایک شخص کو میں نے ٹھیلہ لگاتے دیکھا‘ چلتے چلاتے وہ مالدار آدمی بن گیا‘ ا س شخص نےاپنا بہت اچھا گھر بنایاجہاں وہ مجھےبھی لےکر گیا۔ پہلے وہ روزانہ ڈیڑھ سو‘ دو سو حد پانچ سو کی چیز بیچ لیتا تو بہت خوش ہوتا تھا‘ اب وہ وقت آیا کہ اس کی روزانہ پچاس‘ ساٹھ‘ ستر ہزار کی فروخت ہونے لگی‘ وہ بہت خوش تھا۔ لیکن پھر میاں بیوی میں جھگڑا‘ نفرت‘ تناؤ بڑھتا گیا اور اتنا بڑھا کہ اس نے بڑھاپے میں بیوی کو طلاق دیدی‘ اولاد بکھر گئی‘ کچھ باپ اور کچھ ماں کے ساتھ رہنے لگے۔ اولاد کی زندگی میں نفرت بڑھتی چلی گئی‘ شکوہ شکایات بڑھتے چلے گئے‘ آج وہی اولاد ہے جو دربدر کے دھکے کھارہی ہے‘آخر دونوں فوت ہوگئے ہیں‘ پہلے شوہر فوت ہوا مگر بیوی نے نفرت کی وجہ سے اس کی میت کو نہ دیکھا نہ قریب گئی۔ وہ ایک ہی گھر میں رہتے تھے ایک نیچے کی منزل‘ ایک اوپر کی منزل میں اور پھر آخر بیوی بھی فوت ہوگئی۔ ایک بہت بڑے صحافی نے طوائفوں کی زندگی پر ایک کتاب لکھی ہے ۔ اس کتاب میں نوے فیصد طوائفوں کی بنیاد والدین کے جھگڑے ہیں‘ اولاد کا رخ ان نفرتوں اور جھگڑوںکی وجہ سے خیر سے ہٹ کر شر کی طرف چلا جاتا ہے۔
بیوی سے زیادہ موبائل کو وقت دینے کاانجام
میرے والد صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے اولاد محبت کی پیداوار ہے‘ یعنی انہیں محبت دی جائے نفرت‘ سختی ہرگز نہ دی جائے۔ وہ محبت سے ہی آگے بڑھیں گے‘ ان کی غلطیوں پر انہیں اسی وقت نہ ٹوکا جائے‘ بعد میں علیحدہ محبت پیار سے سمجھائیں لیکن مختصر‘ حتیٰ کہ لفظوں سے زیادہ لہجہ کی سختی ہوتی ہے اور لہجہ اگر سخت ہوتا جائے تو وہ الفاظ سے بلکہ گالیوں سے بڑھ جاتا ہے۔ گھر ٹوٹتے جارہے ہیں‘ شوہر بیوی سے زیادہ موبائل کو وقت دیتا ہے‘ پہلے سننے میں آتا کہ شوہر بیوی سے زیادہ ٹی وی کو وقت دیتا ہے‘ اس سے پہلے سننے میں آتا تھا شوہر بیوی سے زیادہ دوستوں کو وقت دیتا ہے‘لیکن اب زیادہ وقت موبائل کودیتا ہے‘اسی طرح بیوی شوہر سے زیادہ موبائل کووقت دیتی ہے۔ تنہائیاں بڑھتی جارہی ہیںاور تنہائیوں کے روگ بڑھتے جارہے ہیں۔
چونکہ معالج ہوں اس لیے میرے پاس روز کوئی نہ کوئی داستان کہانی‘ واقعہ‘ روگ‘ الجھنیں‘ تکالیف‘ مشکلات مسائل آتے ہیںاور گھر مسلسل پریشانیوں اور مشکلات میں الجھے رہتے ہیں۔
ہم ان رشتوں کو کیسے بچائیں؟ گھر ٹوٹنے سے کیسے محفوظ رہیں‘اس ضمن میں یہ چھوٹے چھوٹے راز ہیں جو میں نے بتائے ہیں‘ ان کو پڑھ کر ضرور اور مسلسل سوچیں کیونکہ جب گھریلو تلخیاں بڑھتی ہیں تو نفرتیں بھی بڑھتی ہیں ‘ پھر آخر نفرت جیت جاتی ہےاور رشتے ہار جاتے ہیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں