(ارسلان احمد)
ارسطو کا کہنا ہے کہ ’’صحیح شخص پر صحیح مقصد کے لیے صحیح انداز میں غصہ کرنا آسان کام نہیں ہوتا۔‘‘غصے کی حالت میں ہم پُرجوش ہوتے ہیں اور ایسے میں خود کو سنبھالنا قدرے مشکل ہوتا ہے۔ اکثر یہ مشورہ دیا جاتا ہے کہ غصہ آئے تو اسے ضرور نکالنا چاہیے لیکن اب یہ مشورہ ماننے کے قابل نہیں رہا، کیونکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ بار بار غصہ کرنے سے یہ عمل اور بھی زیادہ پختہ ہو جاتا ہے۔ بالکل اسی طرح پریشان رہنے سے پریشان رہنے کی عادت بن جاتی ہے۔ پریشان ہونے کی صورت میں سوچ اور سمجھ کی صلاحیت کمزور پڑجاتی ہے، جس کے نتیجہ میں ناکامی سے واسطہ پڑسکتا ہے۔ جو لوگ دوسروں سے اچھے برتائو کا ہنر جانتے ہیں وہ معاشرتی صورت حال کو سمجھنے کی خوب صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی زندگی خوش گوار گزرتی ہے اور وہ لوگ عملی زندگی میں بھی کامیاب ہوتے ہیں۔ یہ دوسروں کو متاثر کرتے ہیں اور لوگ ان کو پسند کرتے اور ان پر اعتماد کرتے ہیں، لیکن اس کے برعکس تکرار پسند دوسروں کو پریشان کرنے، اوروں سے تعلقات خراب کرنے، دوسروں کو حقیر جاننے اور خود کو اُونچا سمجھنے والے لوگ اکثر نفرت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو شخص اپنے آپ کو پہچانے گا تو اسے دوسروں سے برتائو کا ڈھنگ بھی آجائے گا اور اس میں اخلاق اور دیانتداری کی اعلیٰ خوبیاں بھی موجود ہوں گی اور وہ جذباتی ذہانت کا مالک سمجھا جائے گا۔
ماہرین نفسیات کے بیانات کو مدنظر رکھتے ہوئے اگر ہم اجتماعی طور پر اپنا جائزہ لیں تو معلوم ہوگا کہ ہم ایک ایسی قوم ہیں جس میں جذباتی ذہانت کے اظہار کی صلاحیت بہت ہی کم ہے۔ ہم میں حقیقت کے اعتراف کا حوصلہ نہیں ہے۔ ضرورتوں اور خواہشات کو فوراً پائے تکمیل تک پہنچانے کا رحجان ہم کو اخلاق سے گری ہوئی حرکتو ں اور بددیانتی کی طرف لے جاتا ہے لیکن ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ اس طرح کا ناپسندیدہ عمل اختیار کرنے سے ہم کو جو بھی کامیابی اور خوشی حاصل ہوتی ہے وہ دیرپا نہیں ہوتی۔ اس کے نتیجے میں رسوائی اور پشیمانی کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ ہم میں اخلاق اور کردار کے حوالے سے کئی خرابیاں ہیں، کیونکہ ہم ہر معاملے میں اپنی مرضی چاہتے ہیں اور دوسروں کو ان کا حق نہیں دیتے۔ دوسروں کے جذبات اور احساسات کا خیال نہیں کرتے دوسروں کی پسندناپسند ہمارے لیے کوئی حیثیت نہیں رکھتی، دوسروں کا لحاظ اور عزت نہیں کرتے۔ ہم میں کردار، تہذیب اور شائستگی جیسی خوبیاں ختم ہوتی جارہی ہیں۔ دوسروں کی عیب جوئی اور برائی کرنا مشغلہ بن چکا ہے۔ ہم اپنے قومی وقار کی بھی پروا نہیں کرتے، دوسروں پر الزام لگاتے، دھوکا بازی کرتے اور روز مرہ کے کاموں میں بھی کوتاہیاں کرتے ہیں۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود ہم اپنے غلط، غیر اخلاقی اور غیر قانونی کاموں پر شرمندہ ہونے کی بجائے انہیں صحیح سمجھتے ہیں اور یہ سب ہماری کم تر جذباتی ذہانت کا کھلا ثبوت ہے، لیکن ہم کو مایوس نہیں ہونا چاہیے، کیونکہ ماہرین نفسیات کے مطابق پختہ ارادے باندھنے اور عمل پیہم سے جذباتی ذہانت میں بہتری لائی جاسکتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں