داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ (پھلت):حضرت مولانا عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
مجنوں کو کسی سے اطلاع ملی کہ فلاںحضرت آج لیلیٰ کے وطن جارہے ہیں‘ یہ بے تاب ہوکر حضرت کے پاس پہنچا‘ وہ اونٹ پر سوار پایابہ رکاب تھے۔ مجنوں نے پوچھا: کیا واقعی آپ میری لیلیٰ کے وطن جارہے ہیں؟ وہ بولے ہاں۔ مجنوں نے کہا: میری لیلیٰ سے میرا محبت بھرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ مجنوں تمہاری محبت میں تڑپ رہا ہے یہ کہہ کر وہ رک گیا۔ حضرت اونٹ پر سوار آگے بڑھے‘ مجنوں نے آواز دی‘ حضرت ایک اور بات یہ بھی کہہ دینا‘ تھوڑی دیر کے بعد پھر مجنوں دوڑتا رہا اور تعاقب کرتا رہا اور بولتا رہا‘ اجی حضرت یہ بات بھول گیاتھا‘ یہ بھی کہہ دینا۔ سفر پورا ہوگیا اور مجنوں آگے آیا اور بولا: اجی حضرت لیلیٰ سے یہ بھی کہہ دینا۔ مجنوں دوڑتا رہا اور تعاقب کرتا رہا اور بولتا رہا: اجی حضرت یہ بات بھو ل گیا تھا‘ یہ بھی کہہ دینا۔ سفر پورا ہوگیا اور مجنوں کی باتیں پوری نہیں ہوئیں۔ یہاں تک کہ لیلیٰ کا وطن آگیا‘ سفر طویل تھا‘ مجنوں کے پاؤں تکان سے اتنے ورم کرگئے تھے کہ جلد پھٹ کر خون رسنے لگا تھامگر اس کو اپنی لیلیٰ کے لیے پیغام دیا آتے رہے۔ حضرت کی نگاہ مجنوں کے پاؤں پر پڑی تو تڑپ گئے کہ کیا حال ہوگیا ہے۔ شہر کے حدود میں مجنوں کے داخلہ پر سخت پابندی تھی‘ وہیں رک کر وہ اپنی لیلیٰ کے گھر اس کا پیغام پہنچانے والے حضرت اور ان کے اونٹ کو محبت حیرت سے دیکھتا رہا‘ حضرت آنکھوں سے اوجھل ہوئے تو پاؤں میں درد کی وجہ سے مجنوں سے کھڑا نہیں ہوا جارہا تھا‘ وہ لیٹ گیا‘ اچانک اس کے دل میں آیا کہ جس طرح اس کے پاؤں ہیں اُدھر لیلیٰ کا گھر نہ ہو‘ وہ اپنے پاؤں کو گھماتا رہا اس خیال سے کہ شاید لیلیٰ کا گھر اِدھر ہی ہو‘ پھر مجبوراً وہ کھڑا ہوگیا مگر درد کی وجہ سے کھڑا ہونا مشکل تھا اور کھڑے ہونے پر جلد سے خون زیادہ بہنے لگا تھا۔ اس کو ایک تدبیر سوجھی کہ سر نیچے اور پاؤں اوپر کرکے الٹا کھڑا ہوجاؤں‘ اس لیے کہ یقیناً آسمان کی طرف لیلیٰ کا گھر نہیں ہوگا۔ ادھر حضرت کومجنوں پر ترس آگیا‘ مجنوں کے ورم زدہ پاؤں سے رستا خون دیکھ کر ان کا دل بھر آیا‘ وہ سیدھے شہر کے طبیب کا پتہ معلوم کرکے اس کی دوا لینے طبیب کے یہاں پہنچے اور مجنوں کے سفر کا حال اور اس کی تکلیف بتا کر مرہم دینے کے لیے کہا۔ طبیب نے علاج بتایا کہ اگر جلدی افاقہ چاہتے ہیں تو سب سے بہتر علاج یہ ہے کہ طویل سفر کی وجہ سے دوران خون پاؤں کی طرف زیادہ ہوگیا ہے اس لیے سب سے آسان علاج یہ ہے کہ مریض کچھ وقت سر اوپر اور پاؤں نیچے کرکے کھڑا ہوسکتا ہو تو ہوجائے ورنہ کوئی دوسرا اس کو پکڑ کر اسی طرح کھڑا کرے‘ ورم چند گھنٹوں میں تحلیل ہوجائے گا۔ دوسرے علاج میں تو ہفتوں لگ جائیں گے۔ حضرت علاج معلوم کرکے مجنوں کے پاس پہنچے تو دیکھا کہ مجنوں سر نیچے اور پاؤں اوپر کیےکھڑا ہے‘ وہ حیرت سے بولے: تمہیں یہ علاج کس نے بتایا؟ اور پھر طبیب کے پاس جانے اور علاج کی تفصیل بتائی تو مجنوں نے بے ساختہ جواب دیا: حضرت آپ جاکر میری لیلیٰ کو میرا پیغام سناتے۔ آپ نے فضول طبیب کے پاس جانے کی زحمت کی‘ میری محبت تو خود میری طبیب ہے۔
مجنوں دیوانہ تھا مگر اس نے بڑے پتہ کی بات کہی کہ محبت‘ بیمار محبت کا خود علاج کردیتی ہے ہم نام کے بے جان مسلمان ہیں‘ احکام شریعت پر عمل کرتے ہیں اس لیے ’’کیوں کیا اور کیسے‘‘ کے سوالات رکاوٹ بنتے ہیں کیونکہ حقیقت میں محبت جو ایمان کی جان ہے وہ نہیں ہے۔ شریعت کے وہی احکام جو ہمیں مجاہدہ اور مشکل لگتے ہیں‘ ان پر عمل کرنے میں عاشقان نیک طینت اور اولیاء اللہ کو مزہ آتا ہے‘ اس لیے کہ ان کو محبت کی دولت حاصل ہے۔ احکام شریعت اور اتباع سنت کو مجاہدہ اور مشقت سمجھنے کے بجائے ان پر عمل کا مزہ لینے کے لیے ‘ اس محبت کی آگ کو جو ایمان کی روح ہے‘ جلانا اور بڑھانا پڑتا ہے۔ مگر اس آگ کو حاصل کرنے کے لیے اپنے دل کے بجھے چراغ کو کسی دل جلے کے چراغ دل کی لَو سے لگانا پڑتا ہے۔ بقول عارف باللہ عاشق صادق حضرت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی رحمۃ اللہ علیہ:
قریب جلتے ہوئے دل کے اپنا دل رکھ دے
یہ آگ خود نہیں لگتی لگائی جاتی ہے
عشق حقیقی کی اس آگ کودہکائے بغیر زندگی بے جان‘ بے مزہ‘ پھیکی اور خشک ہے۔ کاش ہم سمجھ سکتے!!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں