یہ انسانی معاشرہ جہاں میرے اور آپ جیسے اربوں انسان زندہ رہ رہے ہیں بڑی نفسا نفسی، ابتری اور بدحالی کا شکار ہے۔ دنیا کا کوئی کونا کوئی سرا ایسا نہ ہوگا جہاں اس بات کو محسوس نہ کیا جارہا ہو کہ دنیا کی اصلاح ہونی چاہیے۔ ہر ملک، شہر اور علاقے میں کوئی نہ کوئی تنظیم، جماعت یا گروہ اپنے اپنے انداز میں اس عمل کے لیے کوشاں لوگوں کو اپنی طرف بلا رہا ہے مگر افسوس کہ ان تمام کوششوں کے باوجود انسانیت اپنے تاریک دور سے گزر رہی ہے۔ آج جیسی باتیں ہمارے کان سن رہے ہیں، جیسے حالات اور مناظر ہماری آنکھیں دیکھ رہی ہیں وہ سب انسان کے دل میں کھٹکا سا پیدا کررہے ہیں، ہمیں سوچنے پر مجبور کر رہے ہیں کہ کاش ! یہ دنیا بہتر ہو جائے، امن وامان، سکون و اطمینان، اتحاد اور یگانگت اس دنیا کا مقدر ہو جائے مگر نگاہ افسوس کے ساتھ واپس پلٹ آتی ہے۔ برائی کے آکٹو پس نے معاشرے کو ایسے جکڑ لیا ہے کہ اچھائی اور نیکی کی کرنیں دم توڑتی نظر آتی ہیں۔ ہمیں ہمارا مستقبل تاریک نظر آتا ہے۔ ایسی تاریکی جو برائیوں کی تاریکی ہے۔ وہ برائیاں جن کی ایک لمبی فہرست بنائی جاسکتی ہے لیکن اگر ان برائیوں کی جڑ تلاش کی جائے تو بلاشبہ خرابی وہاں سے شروع ہوتی ہے جہاں انسان میں خدا کا خوف ختم ہوتا ہے اور دنیا کی محبت دل میں گھر کرلیتی ہے اور اس کے نتیجے میں خود احتسابی کا عمل ختم ہوتا جاتا ہے۔ کیا کبھی آپ نے غور کیا ہے کہ صبح سے شام تک اور پھر رات سے اگلے دن کے سورج کے طلوع ہونے تک دنیا کی مصروفیات کیا ہیں؟ جو لوگ کولہو کے بیل کی طرح ترقی حاصل کرنے کے لیے دنیا کے گرد چکر پر چکر لگائے جارہے ہیں وہ ترقی کیا ہے؟ وہ ترقی مادی ترقی ہے یعنی انسان دنیا کی ہر شے حاصل کرلینے کی خواہش میں مبتلا ہے۔ دن اور رات گزرتے جائیں اگر انسان کو اپنے عمل کی پرواہ مٹ جائے، نہ وہ حقوق الٰہی کا خیال رکھے نہ حقوق العباد کا، نفس کے راستے پر شیطان کے بتائے طریقے پر اندھوں کی طرح چلتا رہے تو اس کا انجام بربادی کے سوا اور کیا ہوگا۔
رب تعالیٰ کی کوئی بھی مخلوق چاہے وہ کتنی ہی حقیر کیوں نہ ہو، بے مصرف پیدا نہیں کی گئی پھر اشرف المخلوقات کو رب تعالیٰ نے بے مصرف زندگی گزارنے کا حق کیسے اور کیوں دیا ہوگا۔ انسان اپنا نائب اسے بناتا ہے جو اس کا اہل ہو،پروردگار نے انسان کو بھی اپنا نائب بناکر بھیجتے وقت اس کی یہ ڈیوٹی لگائی تھی کہ وہ اپنے فہم سے کام لے کر شیطانی کاموں سے بچے گا اور اللہ کے دین کو پھیلائے گا لیکن ان تمام فرائض کی ادائیگی وہ تب ہی کرسکتا ہے جب وہ خود اپنے اعمال اور زندگی سے غافل نہ ہو یہی خود احتسابی ہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خود احتسابی کیسے شروع کریں؟ خود احتسابی کسی ایک کے لیے شرط نہیں، ہر شخص کے پاس ضمیر نام کی ایک شے موجود ہے۔ اپنے دل کوسکون کی چند گھڑیاں دے کر یہ سوچیں کہ اب تک آپ نے جو زندگی گزاری وہ کس مقصد کے تحت گزاری، اس سفر میں آپ نے اپنے ہم سفروں کے ساتھ کیا سلوک کیا۔ آپ کے اندر کون کون سی برائیاں پیدا ہوئیں یا کون سی اچھائیاں آپ کی ذات کا حصہ بنیں۔ آپ کی خوشی اور غم کس کے ساتھ منسلک ہیں۔ ذرا تصور کریں کہ جو زندگی گھنٹہ بہ گھنٹہ آپ گزارتے چلے جارہے ہیں اس کا اختتام کیا ہوگا۔ جب ہم کوئی کہانی پڑھتے ہیںتو ہر کردار اور کہانی کا کچھ نہ کچھ اختتام ہوتا ہے بالکل اسی طرح اپنا اختتام بھی سوچیں۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں