Ubqari®

عالمی مرکز امن و روحانیت
اعلان!!! نئی پیکنگ نیا نام فارمولہ،تاثیر اور شفاءیابی وہی پرانی۔ -- اگرآپ کو ماہنامہ عبقری اور شیخ الوظائف کے بتائے گئے کسی نقش یا تعویذ سے فائدہ ہوا ہو تو ہمیں اس ای میل contact@ubqari.org پرتفصیل سے ضرور لکھیں ۔آپ کے قلم اٹھانے سے لاکھو ں کروڑوں لوگوں کو نفع ملے گا اور آپ کیلئے بہت بڑا صدقہ جاریہ ہوگا. - مزید معلومات کے لیے یہاں کلک کریں -- تسبیح خانہ لاہور میں ہر ماہ بعد نماز فجر اسم اعظم کا دم اور آٹھ روحانی پیکیج، حلقہ کشف المحجوب، خدمت والو ں کا مذاکرہ، مراقبہ اور شفائیہ دُعا ہوتی ہے۔ روح اور روحانیت میں کمال پانے والے ضرور شامل ہوں۔۔۔۔ -- تسبیح خانہ لاہور میں تبرکات کی زیارت ہر جمعرات ہوگی۔ مغرب سے پہلے مرد اور درس و دعا کے بعد خواتین۔۔۔۔ -- حضرت حکیم صاحب دامت برکاتہم کی درخواست:حضرت حکیم صاحب ان کی نسلوں عبقری اور تمام نظام کی مدد حفاظت کا تصور کر کےحم لاینصرون ہزاروں پڑھیں ،غفلت نہ کریں اور پیغام کو آگے پھیلائیں۔۔۔۔ -- پرچم عبقری صرف تسبیح خانہ تک محدودہے‘ ہر فرد کیلئے نہیں۔ماننے میں خیر اور نہ ماننے میں سخت نقصان اور حد سے زیادہ مشکلات،جس نے تجربہ کرنا ہو وہ بات نہ مانے۔۔۔۔

آج کی ساس کل کی بہو (نصرت ندیم)

ماہنامہ عبقری - جنوری 2010ء

شاہدہ رشتے میں ثریا کی بھتیجی تھی جسے سب لاڈلی اور آنکھوں کا نور کہتے تھے ۔ یہی وجہ تھی کہ ثریا نے اسے اپنی بہو بنانے کا فیصلہ کیا۔ رشتہ مانگنے سے شادی تک کے مراحل خوشی اور محبت کے جذبات کے تبادلے میں غیر محسوس انداز سے گزر گئے۔ شادی کے بعد ابتداءہی سے ثریا صا حبہ نے اختیارات کی رسی کو کسنا شروع کر دیا۔ شاہدہ نے کچھ دن تو برداشت کیا۔ آخر اس کی رگوں میں بھی اسی خاندان کا خون دوڑ رہا تھا اس لئے اس نے بھی ساس کو ترکی بہ ترکی جواب دینا شروع کر دیا۔ ان لڑائیوں میں نندوں نے بھی ماں کی حمایت کر دی۔ دوسری طرف سے شاہدہ نے اپنے شوہر سلیم کو اکسانا شروع کر دیا جو پہلے ہی کولہو میں سرسوں بن چکا تھا۔ ایک روز تو حد ہی ہو گئی۔ ثریا نے شاہدہ کو میکے جانے سے روک دیا۔ اس نے رو رو کر سارا گھر سر پر اٹھا لیا۔ ثریا نے تیز آواز میں اس سے کہا ”کلموئی اتنی پھٹی آواز کے ساتھ مت چیخ‘ اپنی نہیں تو ہماری عزت کا خیال کر تجھے بہو بنا کر تو میں نے کوئی گناہ اپنے سر لے لیا“۔ شاہدہ نے سُوجی ہوئی آنکھوں سے ساس کو دیکھا اتنی بری تھی تو ابا سے منتیں کیوں کرتی تھی۔ مجھے پتہ ہوتا کہ میں اس جہنم میں جانے والی ہوں تو زہر کھا لیتی مگر شادی نہ کرتی۔ ثریا نے اپنے میاں کو مخاطب کیا ‘ اے جی سنتے ہو‘ اس گھر کو جہنم کہہ رہی ہے۔ اسے بتاﺅ یہ گھر اس کے آنے سے پہلے جہنم تھا یا اب ہو گیا ہے۔ پھر وہ فسا ہوا کہ خدا کی پناہ‘ سارا محلہ ان کی چیخ و پکار سنتا تھا اور ہنستا تھا۔ شام کو سلیم آیا تو بھی ہنگامہ ہوتا رہا آخر شاہدہ اپنا بیگ تیار کر کے میکے چلی گئی اور سلیم سے کہا جب دوسرا مکان لے لو تو مجھے لے جانا۔ ساس اور بہو کے تنازعات کا یہ ادنیٰ سا نمونہ ہے ۔ ان روایتی جنگوںکی تاریخ شاید سینکڑوں سال پرانی ہے لیکن دوسرے ممالک کے بر خلاف بر صغیر پاک و ہند میں اس تنازع نے زیادہ فروغ پایا۔کچھ لوگ اسے ہندوﺅں کے رسم و رواج کا اثر قرار دیتے ہیں جب کہ کچھ پسماندہ سوچ اور جہالت کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں۔ بہر حال کچھ بھی کہا جائے آج ہمارے معاشرے میں ساس بہو کے جھگڑے عام ہیں حالانکہ ہندوﺅں سے الگ ہوئے بھی ہمیں نصف صدی کا عرصہ ہو چکا ہے اور تعلیم بھی گزشتہ سالوں کی بہ نسبت بہتر ہو گئی ہے۔ اس طرح کے جھگڑوں میں کبھی ساس بھی قصور وار ہوتی ہے۔ شبانہ لاہور سے بیاہ کر پیا دیس یعنی سکھر پہنچی لیکن امیدوں اور خوشیو کا یہ تاج محل جسے شادی کے نام سے موسوم کرتے ہیں اس وقت کانچ کے گھروندے کی مانند چکنا چور ہو گیا جب انہیں ایک ظالم ساس سے واسطہ پڑا۔ دوسرے شہر میں میکہ ہونے کی وجہ سے بھی ساس شیرہو گئی اور شبانہ پر زیادتیاں کرنا شروع کر دیں۔ صبح سے شام تک گائے بیلوں کی طرح کاموں میں ستعمال کرنے کے ساتھ طعنے اور مغلظات بکتی رہتی ۔ کئی مرتبہ ہاتھ بھی اٹھا چکی۔ ایک مرتبہ تو چوٹی پکڑ کر سر دیوار سے ٹکرا دیا تھا۔ ورنہ عام طور پر مار پیٹ کا فریضہ اس کافرمانبردار ’فرزند‘ انجام دیتا ہے جو شبانہ کا شوہر نامدار بلکہ شوہر نامراد ہے۔ شادی کے بعد سے ڈیڑھ سال ہونے تک وہ اپنے میکے نہیں جا سکی۔ شروع کا ایک سال تو حمل کی وجہ سے چھوت چھات میں گزر گیا ۔ ادھر مت بیٹھو‘ اُدھر مت جاﺅ‘ گھر سے باہر مت نکلو‘ جادو ہو جائے گا‘ نظر لگ جائے گی۔ لڑکے کی پیدائش کے بعد بچے کی دیکھ بھال میں چھ ماہ بیت گئے۔ اچھے دنوں کی آس میں شبانہ اپنی زندگی کے دن گزار رہی ہے اور ہر طرح کے مصائب برداشت کر رہی ہے۔ بعض گھرانوں میں ساس مظلوم دکھائی دیتی ہے۔ مثلاً کراچی کی شمسہ بیگم اپنے بڑے بیٹے جمشید کیلئے بہت چاﺅ سے ایک لڑکی کو بیاہ کر لائیں۔ شمسہ بیگم نے عالم بیوگی میں بچوں کو پالا پوسا تھا۔ جمشید سے چھوٹی بہن گڑیا کی شادی ہو چکی تھی۔ اس سے چھوٹی مونا بھی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھ چکی تھی۔ باقی دونوں بیٹے نویں اور آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے۔ جمشید کی شادی کے بعد بہو فرح نے اپنے شیطنت ظاہر کرنا شروع کی۔ گھر کا سارا کام نند پر لاد دیا۔ بڑھاپے کی وجہ سے شمسہ بیگم اب سلائی وغیرہ کا کام نہیں کر سکتی تھیں وہ خاموشی سے فرح کی ناز برداریاں کرتی رہیں مگر اس کی زیادتیاں پھر بھی بڑھتی رہیں۔ یہ دیکھ کر شمسہ نے بیٹے کا باورچی خانہ الگ کر کے اسے علیحدہ گھر داری کا موقع دیا مگر فرح کا پھوہڑ پن اس ذمہ داری کو کہاں سنبھال سکتا تھا۔ گندگی اور بد مزہ کھانوں کی وجہ سے جمشید نالاں رہنے لگا۔ شمسہ نے بہو کو سمجھانے کی کوشش کی تو وہ ہتھے سے اکھڑ گئی اور علیحدہ مکان کا مطالبہ کر دیا۔ جمشید اپنی تنخواہ کا نصف ماںکو دیتا تھا۔ یہ فرح کو کہاں گوارہ تھا۔ رو زروز کے جھگڑوں سے تنگ آ کر شمسہ بیگم نے جمشیدکو علیحدہ کرائے کا مکان لینے کا کہہ دیا اور چھوٹے بیٹوں کو کام سیکھنے پر لگا دیا جو نویں اور آٹھویں کلاس میں پڑھ رہے تھے۔ فرح لڑ جھگڑ کر جمشید کو الگ لے جانے میں کامیاب ہو گئی۔ جس کی وجہ سے شمسہ بیگم نے سخت معاشی مسائل کا سامنا کیا اور کئی مہینوں میں ان کو سنبھال مل سکا۔ اس کے علاوہ بہت سے گھرانوں میں جھگڑوں کی وجہ ساس اور بہو دونوں نظر آتی ہیں۔ ان گھروں میں دن کا سکھ اور رات کا چین مفقود ہے۔ سب کے اعصاب کھنچے رہتے ہیں ۔ گھر جہنم زار بن جاتا ہے۔ شریف النفس لوگ ایسے لوگوں سے ملنے جلنے سے کتراتے ہیں۔ ایسے گھروں کی لڑکیوں کی شادی میں مشکلات پیش آتی ہیں کیونکہ اس طرح کے ماحول میں پلے بڑھے بچوں کے اندر بھی یہی تشدد بھر جاتا ہے۔ خیر و برکت ان گھروں سے اٹھ جاتی ہے۔ نورانیت کی بجائے وحشت اور رحمانیت کے بجائے شیطنت ٹپکتی محسوس ہوتی ہے۔ اس ماحول میں پانچ منٹ گزارنا بھی اتنا مشکل دکھائی دیتا ہے جیسے وقت گزر ہی نہ رہا ہو۔ اس فساد کی وجہ سے گھر کا ماحول تو جو خراب ہوتا ہے وہ تو ہوتا ہی ہے لیکن اس سے آنے والی نسل پر بہت برا اثر پڑتا ہے اور گھر سے خیر و برکت اٹھ جاتی ہے اور رزق تنگ ہو جاتا ہے اور اگربہو ذمہ دار ہو تو اس کے بڑھاپے میں اس کا مکافات عمل شروع ہو جاتا ہے اور اسے وہی کچھ بھگتنا پڑتا ہے جو کرتی تھی یا سوچا کرتی تھی اور اگر ساس ذمہ دار ہو تو آخرت کے سفر سے پہلے وہ کوئی اچھی یاد اور نیک تاثر چھوڑ کر نہیں جاتی لہٰذا دونوں فریقین کو برداشت‘ تحمل اور در گزر کا معاملہ کرنا چاہیے۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 227 reviews.