ہر ماہ توحید و رسالت سے مزین مشہور عالم کتاب کشف المحجوب سبقاً حضرت حکیم صاحب مدظلہٗ پڑھاتے ہیں اور مراقبہ بھی کرواتے ہیں۔قارئین کی کثیرتعداد اس محفل میں شرکت کرتی ہے۔ تقریباًدو گھنٹے کے اس درس کا خلاصہ پیش خدمت ہے۔
اس سبق میں شیخؒ پیر علی ہجویریؒ نے ہمیں جو احتیاطیں بتائیں ہیں انکے اندر خیر خواہی کے جذبے ہیں۔ پیر علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ اپنی زندگی احتیاط کے ساتھ گزاریں‘راستہ صرف توحید اور اطاعت نبی ﷺوالا اختیارکریں۔ ایسا نہ ہو کہ ساری زندگی محنت بھی کرتے رہے، مشقت بھی کرتے رہے، قربانیاں بھی دیتے رہے۔ آنکھ کھلی تو پتا چلا کہ وہ تو سراب تھا ،دھوکہ تھا۔ وہ تو اللہ کی محبت والا راستہ تھا ہی نہیں۔ اللہ کے غیر کا محبت کا راستہ تھا۔ سرورِکونین ﷺ کا پسندیدہ راستہ تھا ہی نہیں یہ توسرورِکونینﷺ کا ناپسندیدہ راستہ تھا۔ شیخ مزید بتاتے ہیں کہ جب تک طبیعت نہیں ٹوٹے گی ،اس وقت تک شریعت نہیں آئے گی۔ مطالعے کو طبیعت چاہتی ہے ۔ ہم کہتے ہیں نہیں اس کو چھوڑ تنہائی میں بیٹھ کے ذکر کر۔ یہ کہتا ہے تھک جاتا ہوں۔ اب اس کی طبیعت کو توڑنا ہے۔ روزہ کس چیز کا نام ہے؟ سارا کا ساراطبیعت کو توڑنے کا نام ہے، شیخ معالج ہوتا ہے نا؟ معالج کہتا ہے کہ طبیعت کو توڑے گا تو صحت ملے گی۔ یہ چھوڑ دے، یہ چھوڑ دے، یہ چھوڑ دے۔ وہ کہتا ہے جی چٹخارے ، کہتا ہے چھوڑ !پھیکی چیزیں کھا۔ طبیعت ٹوٹی شوگر لیول کم ہوا، کولیسٹرول،یوریا، یورک ایسڈ فلاں فلاں کم ہوئے۔ شوگر لیول کم ہوا۔ جب لیول کم ہوا تو صحت ملنا شروع ہو گئی۔
منشائے شیخ پر چلانا:تیسری چیز یہ ہے کہ اس کو منشائے شیخ پہ چلانا ہے۔ اس کی منشاء یہ ہے کہ میں یہ پڑھوں۔ ہماری منشاء یہ ہے کہ یہ یہ نہ پڑھے۔ اس کو منشائے شیخ پہ چلانا ہے اور لانا ہے۔ تین ہوگئیں۔ کیونکہ اگر اس کو منشائے شیخ نہ آئی ،اپنے مرشد کی منشاء نہ آئی اور اپنی منشاء پہ چلتا رہا۔ تو یہ سو سال بھی چلتا رہے گا تو ایسے ہی رہے گاکیونکہ اس کو ماننا ہی نہ آیا ۔(جاری ہے)
اسکو لذات سے ہٹانا
چوتھی چیز جو ہے اسکو لذات سے ہٹانا ہے۔ یہ مطالعے کی بڑی لذت ہوتی ہے۔ سٹڈی کی نا بڑی لذت ہوتی ہے۔ باتوں کی بڑی لذت ہوتی ہے۔ اس دن میں اپنی گاڑی میں ایک صاحب سے ملنے جا رہا تھا ۔ وہ ایک صاحب ہیں، اسلحے اور بندوقوں کا کام کرتے ہیں ۔ ان کا نام الیاس ہے۔ اسکو میں نے گاڑی میں بٹھا لیا۔ میں نے کہا چل آ بیٹھ جا۔ وہ تو بڑا مزاحیہ آدمی تھا۔ بات سے بات نکالتا تھا۔ حیران، ایسی عجیب باتیں کرتا تھا ایسی عجیب باتیں کہ سب کو ہنسا کے لوٹ پوٹ کردیتا تھا۔ بات میں سے ایسے بات نکالتا تھا کہ عقل میری دنگ رہ گئی۔ میں پھر سوچنے لگا۔ میں نے کہا کہ یا اللہ تیرا شکر ہے میں بھی بات میں سے بات نکالتا ہوں لیکن اسکی لڑی دوسری طرف جا کے ملتی ہے۔
جیسے آپکو واقعہ سنایا تھاکہ ابھی کل ہی کی بات ہے، میں گاڑی میں سفر کر رہا تھا۔ چھ سات گھنٹے سفر کیا۔ ایک بھٹے کے قریب سے گزروہاںاینٹیں درجہ بندی کے ساتھ پڑی تھیںیعنی اول بھی علیحدہ پڑی ہوئی تھیں اوردوم بھی علیحدہ پڑی ہوئی تھیں۔درجہ بندی کی یہ ترتیب دیکھ کر وہیں ایک دم میرے ذہن میںیہ آیت آئی ’’وَامْتَازُوْا الْیَوْمَ اَیُّھَا الْمُجْرِمُوْنَ‘‘ (یٰسین)قیامت کے دن اللہ کہے گا چھانٹی کرے گا آج کے دن نمبر ایک علیحدہ ہو جائیں، نمبر دو علیٰحدہ ہو جائیں۔ اس وقت مجھے خیال آیا۔ تو یہ لذتوں کو توڑنا بھی شیخؒکے ذمے ہوتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں