امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنےدورِ خلافت میں قیصر روم سے جنگ کے لیے مجاہدین اسلام کی ایک فوج روانہ فرمائی اور حضرت سیدنا ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس فوج کا سپہ سالار مقرر فرمایا۔ یہ اسلامی فوج قیصر روم کی لشکری طاقت کے مقابلہ میں انتہائی کمزور مگر جب اس فوج نے رومی قلعہ کا محاصرہ کیا اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ مُـحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہِ کا نعرہ بلند کیا تو کلمہ طیبہ کی آواز سے قیصر روم کے قلعہ میں ایسا زلزلہ آیا کہ پورا قلعہ مسمار ہوکر اس کی اینٹ سے اینٹ بج گئی اور چشم زدن میں قلعہ فتح ہوگیا۔ بلاشبہ یہ امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بہت ہی شاندار کرامت ہے کیونکہ آپ نے اپنے دستِ مبارک سے جھنڈا باندھ کر اور فتح کی بشارت دے کر اس فوج کو جہاد کے لیے روزانہ فرمایا تھا۔ (ازالۃ الخفاء، ج ۳، ص ۱۴۸ تا ۱۴۹)
مدفن کے بارے میں غیبی آواز
حضرت سیدنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتی ہیں کہ امیر المومنین حضرت سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے وصال کے بعد صحابہ کرام علیہم الرضوان میں اختلاف پیدا ہوگیا کہ آپ کو کہاں دفن کیا جائے؟ بعض لوگوں نے کہا کہ ان کو شہدائے کرام کے قبرستان میں دفن کرنا چاہیے اور بعض حضرات چاہتے تھے کہ آپ کی قبر شریف جنت البقیع میں بنائی جائے، لیکن میری دلی خواہش یہی تھی کہ آپ میرے اسی حجرہ میں سپرد خاک کئے جائیں جس میں حضور اکرمﷺ کی قبر منور ہے یہ گفتگو ہورہی تھی کہ اچانک مجھ پر نیند کا غلبہ ہوگیا اور خواب میں یہ آواز میں نے سنی کہ کوئی کہنے والا یہ کہہ رہا ہے کہ ضُـمُّوا الْـحَبِیْبَ اِلَی الْـحَبِیْبِ (یعنی حبیب کو حبیب سے ملا دو) خواب سے بیدار ہوکر میں نے لوگوں سے اس آواز کا ذکر کیا تو بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ آواز ہم لوگوں نے بھی سنی ہے اور مسجد نبوی ﷺکے اندر بہت سے لوگوں کے کانوں میں یہ آواز آئی ہے۔ اس کے بعد تمام صحابہ کرام علیہم الرضوان کا اس بات پر اتفاق ہوگیا کہ آپ کی قبر اطہر روضہ منورہ کے اندر بنائی جائے۔ اس طرح آپ حضور انورﷺ کےپہلوئے اقدس میں مدفون ہوکر اپنے حبیبﷺ کے قرب خاص سے سرفراز ہوگئے۔ (شواھد النبوۃ، رکن سادس دربیان شواھدودلایلی ۔۔الخ، ص ۲۰۰)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شان غلامان مصطفیٰؐ! دل کی بات جان لیتے ہیں!
ایک بار امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پہاڑ سے ایک اعرابی کو اُترتا دیکھ کر ارشاد فرمایا ’’اس شخص کے بیٹے کا انتقال ہوگیا ہے جس کے باعث یہ سخت رنجیدہ ہے۔ اور اس نے اپنے فوت شدہ لخت جگر کے بارے میں اس نے چند اشعار بھی لکھے ہیں، اگر وہ چاہے گا تو ضرور میں تمہیں وہ اشعار سنوائوں گا۔ چنانچہ جب وہ نیچے آیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے ارشاد فرمایا:اے اعرابی! تم کہاں سے آرہے ہو؟‘‘ اس نے کہا ’’پہاڑ سے۔‘‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ’’تم وہاں کیا کررہے تھے؟‘‘ اس نے جواب دیا ’’وہاں اپنی امانت سپرد خاک کرنے گیا تھا۔‘‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا ’’وہ امانت کیا ہے؟‘‘ کہنے لگا: ’’میرا فوت شدہ بیٹا ہے جسے میں وہاں دفن کرکے آرہا ہوں۔‘‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا ’’تم نے اپنے بیٹے کے لیے اشعار بھی مرتب کئے ہیں۔‘‘ اس نے بڑی حیرانگی سے کہا: ’’امیر المومنین! آپ کو ان اشعار کے بارے میں کیسے پتہ چلا؟‘‘ میں نے تو ابھی تک کسی سے اس کا ذکر بھی نہیں کیا۔ بہرحال میں وہ اشعار آپ کو سناتا ہوں پھر اس نے اشعار پڑھنا شروع کیے۔اشعار کا ترجمہ:’’اے جانے والے! تیری سفر سے واپسی ممکن نہیں، تجھے موت نے بچپن میں ہی آلیا۔‘‘ ’’اے میری آنکھوں کی ٹھنڈک! چھوٹی اور لمبی راتوں میں تو میری انسیت کا باعث تھا۔‘‘ ’’جب میں محلے میں چلتا ہوں تو تیرے ننھے ننھے قدموں کے نشانات پر آنکھیں گڑ کر رہ جاتی ہیں۔‘‘ ’’تو نے موت کا وہ جام ابھی سے پی لیا ہے جو تیرے باپ نے بڑھاپے میں پینا تھا۔‘‘ ’’یہ جام تو ہر کسی نے پینا ہے خواہ وہ شہری ہو یا دیہاتی۔‘‘ ’’تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جس کا کوئی شریک نہیں، اس کے فیصلے اور تقدیر میں ایسا ہی مُقَدَّر تھا۔‘‘ ’’اسی نے بندوں کے لئے موت مقدر فرمائی ہے اسی لیے کوئی اپنی عمر بڑھا نہیں سکتا‘‘یہ درد بھرے اشعار سن کر امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی مبارک تر ہوگئی اور فرمایا: ’’اے اعرابی! تو نے سچ کہا۔‘‘
(بحوالہ:مرقاۃ المفاتیح، کتاب المناقب، مناقب عمر بن خطاب، ج ۱۰، ص ۴۱۶)
ایک خارجی کے متعلق پیشن گوئی
اسی طرح ایک مرتبہ امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ ملک شام کے کفار سے جہاد کرنے کے لیے لشکر بھرتی فرما رہے تھے۔ اچانک ایک گروہ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سامنے آیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انتہائی کراہت کے ساتھ ان سے منہ پھیر لیا۔ پھر دوبارہ یہ لوگ آپ کے رُوبرو آئے تو آپ نے منہ پھیر کر ان لوگوں کو اسلامی فوج میں بھرتی کرنے سے انکار فرمادیا۔ لوگ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اس طرزِ عمل پر انتہائی حیران تھے لیکن آخر میں یہ راز کھلا کہ اس گروہ میں ’’اسودتجیبی‘‘ بھی تھا جس نے اس واقعہ سے بیس برس بعد حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنی تلوار سے شہید کیا اور اس گروہ میں عبدالرحمن بن ملجم مرادی بھی تھا جس نے اس واقعہ سے تقریباً چھبیس برس کے بعد حضرت سیدنا علی المرتضیٰ شیر خدا کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم کو اپنی تلوار سے شہید کر ڈالا۔ (ازالۃ الخفاء، ج۴، ص ۱۰۹)
سچے غلامان رسول! جیسا کہتے ہیں ویسا ہی ہوتا ہے
حضرت سیدنا یحییٰ بن سعید رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے روایت ہے کہ امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص سے پوچھا ’’مَااسْـمُکَ یعنی تمہارا نام کیا ہے؟‘‘ وہ کہنے لگا: ’’جَـمْرَہ یعنی اَنگارا‘‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پھر پوچھا: ’’اِبْنُ مَنْ یعنی کس کے بیٹے ہو؟‘‘ اس نے جواب دیا: ’’اِبْنُ شِھَابٍ یعنی شعلوں کا بیٹا‘‘ آپ نے فرمایا: ’’مِـمَّنْ یعنی کس خاندان سے تعلق رکھتے ہو؟‘‘ کہنے لگا: ’’اَلْـحُرْقَۃُ یعنی جلن سے ‘‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے پوچھا: ’’اَیْنَ مَسْکَنُکَ یعنی رہتے کہاں ہو؟ اس نے کہا: ’’بِـحَرَّۃِ النَّار یعنی (باقی صفحہ نمبر 56 پر)
(بقیہ: شان غلامان مصطفیٰؐ! دل کی بات جان لیتے ہیں!)
تپش میں۔‘‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’بِاَیِـّھَا یعنی کس قبیلے سے تعلق ہے؟‘‘ اس نے کہا: ’’بِذَاتِ لَظٰی یعنی شعلے سے‘‘ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: ’’اَدْرِکْ اَھْلَکَ فَقَدِ احْتَرَقُوْا، یعنی جلدی جلدی گھر پہنچو تمہارے گھر والے جل چکے ہیں۔‘‘ یہ سن کر وہ شخص بہت تیزی سے اپنے گھر والوں کی طرف لوٹا لیکن امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فرمان کے مطابق وہ سب جل چکے تھے۔‘‘ (موطا امام مالک، کتاب الاستئذان، باب مایکرہ من الاسماء، ج ۲، ص ۴۵۴، حدیث: ۱۸۷۱)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں