خار پشت خشکی پر رہنے والے اور کترنے والے چوپایوں کے گروہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کی پشت پر لمبے لمبے اورنوکیلے سے خار ہوتے ہیں‘ جنہیں عرف عام میں ”تکلے“ بھی کہا جاتا ہے۔ خار پشت کا دوسرا نام ”سیہہ“ بھی ہے۔ یہ جنوبی یورپ‘ افریقہ‘ انڈیا‘ ملایا اور ورنیو میں کثرت سے پایا جاتا ہے۔ آسٹریلیا میں یہ بالکل ناپید ہے۔ اپنی عادات و خصائل کے پیش نظر اس کا مسکن جنگل ہی ہوتا ہے۔ فطری طور پر یہ جانور تنہائی پسند ہے لیکن اسے گھر میں پالا نہیں جا سکتا ۔ سردیوں میں لمبی تان کر سوتا ہے اور موسم گرما میں چست اور چاق و چوبند۔۔۔ دن کا بیشتر وقت سو کر گزارتا ہے اور رات کو شکار کیلئے نکلتا ہے۔ اس جانور کے خار اور دانت ہی اس کے وجود کے دو اہم حصے ہیں۔ یہ اسے جنگلی جانوروں میں ایک نمایاں مقام عطا کرتے ہیں۔ اس کے خاروں کی وجہ سے ماہرین حیوانات اسے زرہ بکتر میں ملبوس سپاہی کہتے ہیں اور سچی بات تو یہ ہے کہ جب اسے کسی قسم کا خطرہ در پیش ہو تو یہ اپنے خار جنگلی وحشیوں کے نیزوں کی طرح تان لیتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ جب کوئی جنگلی جانور یا شکاری کتا اس پر حملہ آور ہوتو یہ پیچھے کی طرف دوڑتا ہے۔ اس وقت ا سکے خار عمودی حالت میں ہوتے ہیں اور نیزوں کی مانند تن جاتے ہیں اور اس طرح یہ خار حملہ آورکے منہ میں گھونپ دیتا ہے۔ اس کا یہ حملہ بڑا مہلک ثابت ہوتا ہے۔ ایک عام اندازے کے مطابق خار پشت کے جسم پر خاروں کی تعداد تیس ہزار کے لگ بھگ ہوتی ہے۔ یہ اندر سے کھوکھلے ‘ ان کے سرے سے سوئی کی طرح نوکیلے اور سوائے معدے اور ٹانگوں کے یہ جسم کے ہر حصے پر ہوتے ہیں‘ البتہ کمر پر سب سے زیادہ اورلمبے خار ہوتے ہیں۔ دُم پر بھی خار ہوتے ہیں مگر تھوڑے تھوڑے فاصلے پر ۔ چھونے میں یہ ہموار اور نرم‘ البتہ ان کے کنارے ذرا کھردرے ہوتے ہیں۔ اگر خورد بین سے ان کا معائنہ کیا جائے تو ان میں ان گنت گانٹھیں نظر آئیں گی۔یہ جانور اتنا سادہ لوح ہے کہ جنگلی دنیا میں اسے ” جنگل کے بے وقوف جانور“ کے خطاب سے نوازا گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی ایسے جنگل کا تصور ممکن نہیں‘ جس میں خار پشت کا وجود نہ ہو۔ اس کی شکل و صورت نہایت مضحکہ خیز ہوتی ہے۔ جن دو چیزوں کے بغیر خار پشت کا وجود بے کارِ محض تھا‘ ان میں سے خاروں کا نام سرِ فہرست ہے اور دوسرا درجہ اس کے دانتوں کا ہے‘ جن کی ”خوبیوں“ سے آپ کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔ اس کے آری کے دندانوں کی مانند تیز دانت انسان کے سب سے بڑے دشمن ہیں۔ ان پیلے پیلے اور مضبوط دانتوں سے یہ بیشمار نو خیز اور کارآمد پودے منٹوں میں کتر کر رکھ دیتا ہے۔ خار پشت نمکین اشیاءنہایت شوق سے ہڑپ کرتا ہے۔ صنوبر کے درخت کی چھال اس کی پسندیدہ غذا ہے۔ اس کے علاوہ دوسرے بہت سے درخت اور پودے بھی اس کی دسترس سے محفوظ نہیں۔ لمبے لمبے اور تیز پنجوں کے ذریعے درخت کے تنے پر چڑھ جاتا ہے اور کسی شاخ پر بیٹھ کر درخت کی چھال اور اس کی کونپلیں کترنا شروع کر دیتا ہے۔ یہ اپنے پنجوں کو لوہار کے رندے کی طرح درختوں کی چھال میں پھیرتا ہے اور اس طرح سے نکلی ہوئی چھال ‘ گودا‘ پتے اور غنچے ہڑپ کرتا جاتا ہے۔ اپنی پسند کے درخت کی چھال کترنے کیلئے اگر اس کے راستے میں ندی یا دریا بھی حائل ہوں تو انہیں عبور کرنے میں قطعاً خوف نہیں کھاتا۔ نمکین چیزیں حاصل کرنے کیلئے یہ اپنے نتھنے پھڑ پھڑاتا ہوا جنگلوں میں ڈالے ہوئے ڈیروں میں گھس کر ہر اس چیز کو چٹ کر جاتا ہے جس میں نمک لگا ہوا ہویا جو نمکین ہو۔ لطف یہ ہے کہ ہر وہ چیز جس پر پسینے کے قطرے گریں‘ گریس یا چکناہٹ کا داغ لگا ہو خار پشت اسے پُر اسراراور والہانہ جوش کے ساتھ ہڑپ کر جاتا ہے۔ ایک واقعہ جو خار پشت کی سادہ لوحی کا غماز ہے ‘ یوں ہے کہ ایک مرتبہ میرا دوست شکار کی گھات میں بے حس و حرکت بندوق تانے کھڑا تھا۔ یکایک ایک خار پشت رینگتا ہوا آیا اور اس کے گھٹنوں تک لمبے ربڑ کے شکاری بوٹ کترنے شروع کر دیئے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ میرے دوست کو اس کے متعلق خبر نہ ہوئی اور اسے خار پشت کا احساس اس وقت ہوا جب اس کے تیز دانتوں نے اس کی پنڈلی کو بھی کترنا چاہا۔ میرے دوست کا کہنا ہے کہ اس نے پاﺅں کی ٹھوکر سے خار پشت کو دور پھینک دیا جہاں وہ ایک نو خیز پودے کو کترنے میں مصروف ہو گیا اور ترچھی نظروں سے بار بار اُسے دیکھتا رہا گویا پوچھ رہا ہو اب تو ٹھوکر نہیں مارو گے؟
Ubqari Magazine Rated 4.5 / 5 based on 194
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں