کائنات میں دو نظام ‘ دو عالم چل رہے ہیں‘ ایک وہ نظام ہے جو ظاہری آنکھ سے نظر آتا ہے۔ آنکھ ظاہری چیز کو دیکھنے کے بعد دماغ کو پیغام بھیجتی ہے اور دماغ اس کے بارے میں رہنمائی کرتا ہے۔ گویا ہمارا سارا دارومدار صرف آنکھ اور دماغ پر ہے ۔ یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ کائناتی نظام بہت وسیع ہے مگر انسانی عقل بہت محدود ہے۔ ہر کوئی فزکس میں PHD نہیں کر سکتا۔ ہر کوئی کیمسٹری یا بائیولوجی میں اکٹھے PHDنہیں کر سکتا۔ اگر فزکس پر لیکچر دینا ہو یا کسی سائنس کے مضمون کی بابت کوئی بات کرنی ہو تو پہلے اس سے ڈگری پوچھی جاتی ہے اس کا تجربہ پوچھا جاتا ہے‘ پھر اس کی بات کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ مگر ہم اللہ کے نظام پر تبصرہ کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں۔ چاہے ہمیں اس بارے میں کوئی علم ہی نہ ہو مگر اپنی علمیت ضرور جتاتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے۔ اسی طرح قبر کے واقعات کا بھی انسانی عقل احاطہ نہیں کر سکتی مگر بعض واقعات ایسے ہوتے ہیں جنہیں انسان اپنی آنکھ سے دیکھتا ہے اور کانوں سے سنتا ہے مگر تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ مگر یہ بات تسلیم کرنا پڑے گی اور احادیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے کہ قبر کا ایک علیحدہ نظام موجود ہے۔ یہ ایک سچا واقعہ ہے‘ جو قبر کھودنے والوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ قبر کھود رہے تھے ‘ سخت گرمیوں کے دن تھے‘ زمین بڑی سخت تھی اور قبر کھودنے میں سخت تنگی پیش آ رہی تھی اور عجیب طرح کی بے چینی تھی اور قبر کھودنے والا بوڑھا گورکن تھا اور اسے تقریباً سب قبروں کی بابت علم تھا کہ یہ کس کی قبر ہے۔ ادھر میت والے چکر لگا رہے تھے کہ جلد کرو۔ بوڑھا گورکن تھوڑی دیر بعد آرام کرنے کے بعد تازہ دم ہو کر دوبارہ قبر کی کھدائی کرنے لگا تو اب قبر جلدی جلدی خود بخود بننے لگی اور مشرقی دیوار میں اچانک سوراخ ہو گیا اور اس میں سے یکدم اتنی خوشبو آنے لگی اور ٹھنڈی ہوا آنے لگی کہ ساری تھکاوٹ دور ہو گئی اور خوشبو ایسی کہ دنیا کی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ گورکن کہتا ہے کہ ڈرتے ڈرتے اس سوراخ میں سے جھانک کر دیکھا تو قبر میں ایک عورت کی میت پڑی تھی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ابھی دفن کی گئی ہے اور اس کے منہ کے پاس تازہ انگور کا گچھا لٹک رہا تھا اور اس کا رس ٹپک ٹپک کر اس میت کے منہ میں جا رہا تھا‘ وہ کہتا ہے کہ اس نے فوراً اس قبر کو بند کر دیا اور نئی قبر کو تیار کر لیا اور میت کو دفن کر دیا گیا۔ اب اس بوڑھے گورکن نے اپنے ذہن پر زور دینا شروع کیا کہ یہ پرانی قبر کس کی ہے۔ مگر اس کے اپنے ہوش سے پہلے کی قبر تھی ‘ اس نے گاﺅں کے بوڑھوں سے بھی پوچھا کہ یہ پرانی قبر کس کی ہے مگر کسی کو کجھ یاد نہیں تھا۔ پتہ نہیں یہ قبر کتنے سال پرانی تھی مگر حقیقت تھی یقینا کسی نیک ہستی کی قبر تھی۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں