ازدواجی وہم جو زندگی تباہ کر سکتے ہیں!
جنس کے بارے میں لٹریچر اب پہلے سے زیادہ دستیاب ہے لیکن ہمارے ہاں اس لٹریچر کا زیادہ تر حصہ گمراہ کن ہے۔ وہ صحیح معلومات مہیا کرنے کے بجائے اوٹ پٹانگ اور اشتعال انگیز ہوتا ہے۔ چنانچہ اس اہم موضوع پر لوگوں کو سائنسی معلومات اب بھی بہت کم ملتی ہیں۔ رہے والدین اور اساتذہ تو وہ خاموش رہنا چاہتے ہیں۔ اول تو وہ خود بھی زندگی کے اس بنیادی پہلو کے ٹھوس علم سے محروم ہوتے ہیں اور اگر ان کے پاس علم ہو تو وہ بچوں تک اس کو منتقل کرنے کی اخلاقی جرات نہیں رکھتے۔ اس لئے ہمارے ہاں ازدواجی مسائل کا بڑا سبب جنسی توہمات ہیں۔
انگریزی زبان میں جنسی معلومات کے موضوع پر ایک اہم کتاب کئی برس پہلے 1966ءمیں شائع ہوئی تھی۔ یہ کتاب ولیم ایچ ماسٹرز اور ورجینا ای جانسن نے مل کر لکھی تھی۔ انہوں نے نئے حقائق نمایاں کئے تھے۔ یوں انہوں نے دنیا بھر کے بے شمار مردوں اور عورتوں کو اپنی جنسی زندگی کوبہتر طور پر سمجھنے کا موقع دیا تھا۔ بین الاقوامی سطح پر اس کتاب کو بہت شہرت ملی تھی۔ یوں امید پیدا ہوئی تھی کہ تحقیق و دریافت سے ایک نیا عہد شروع ہو گا جس میں جنس کے متعلق جہالت کی بجائے علم اور معلومات کو جگہ ملے گی۔
لیکن ایسا نہیں ہوا ہے۔ ازدواجی زندگی کے بارے میں وہم اب بھی تمام معاشروں میں پائے جاتے ہیں اور وہ ان گنت جوڑوں کی زندگی میں زہر گھول رہے ہیں۔ اس طرح سماجی استحکام کو بھی نقصان پہنچ رہا ہے۔ چند وہم حسب ذیل ہیں۔
(1) عورتیں سرد مزاج ہیں: ۔دنیا میں کم و بیش ہر جگہ یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں سرد مزاج ہیں۔ حقیقت مختلف ہے‘ اگر عورت صحت مند ہو تو اس کی طبعی خواہش مرد سے کم نہیں ہوتی‘ بعض صورتوں میں مرد سے زیادہ بھی ہو سکتی ہے۔ اچھا تو پھر یہ وہم اس قدر عام کیوں ہے؟اس کی وجہ یہ ہے کہ روایتی طور پر لڑکوں اور لڑکیوں کی تربیت ایک دوسرے سے مختلف انداز میں کی جاتی ہے۔ اس حقیقت کو فرانس کی مشہور ادیبہ سمون دی بوار نے اپنی کتاب کے پہلے ہی صفحے پر یوں بیان کیا ہے کہ ” مرد پیدا ہوتے ہیں ‘ جب کہ عورتیں بنائی جاتی ہیں۔“ لڑکیوں کو شرم و حیاءکا درس دیا جاتا ہے جب کہ لڑکوں کو زیادہ فعال اور جارحانہ کردار ادا کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ آج کے زمانے میں یہ صورت حال اگرچہ بدل رہی ہے تاہم بہت سی بالغ عورتیں اب بھی محسوس کرتی ہیں کہ ان کو ضرورت سے زیادہ شرم و حیاءسے کام لینا چاہیے۔ اپنے شوہروں سے جنسی جذبوں کااظہار ان کے نزدیک بہت بری بات ہے۔ لہٰذا اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
(2) ازدواجی قوت توجہ سے بہتر ہو جاتی ہے:۔ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ ازدواجی قوت پر جس قدر توجہ دی جائے‘ وہ اتنی ہی بہتر ہو جاتی ہے۔ اس وہم کے پیچھے رتی بھر سچائی نہیں۔ اگر آپ کی سوئی اس بات پر اٹکی رہے کہ جنسی فعل کے دوران آپ کو کس شے کے بارے میں سوچنا چاہیے ‘ آپ کا ساتھی کیا سوچ رہا ہے وغیرہ‘تو پھر آپ خود اس فعل کے لطف سے محروم ہو جائیں گے۔ یاد رکھئے کہ بے ساختہ ازدواجی تعلق ہی بہترین ہوتا ہے۔
(3) جذبے سرد ہو جاتے ہیں:۔یہ بھی ایک عام وہم ہے اور دنیا میں ہر جگہ ہے کہ سال ہا سال تک ایک ہی ساتھی سے ازدواجی تعلق قائم رہے تو وہ بے کیف اور بے مزہ ہو جایا کرتا ہے۔ جنسی آزادی کے بہت سے مبلغ اس وہم کی حمایت کرتے ہیں‘ لہٰذا یوں کہنا چاہیے کہ یہ وہم جدید جنسی ضابطہ اخلاق سے پیدا ہوا ہے۔ بہر حال یہ ہے وہم ہی۔ازدواجی بوریت عموماً اپنے ساتھی کو اچھی طرح نہ جاننے اور اس کے ساتھ رشتے کو گہرا نہ بنانے کے سبب پیدا ہوتی ہے۔ بوریت کو دور کرنے کی خاطر دونوں ساتھیوں کو زیادہ تخلیقی ‘ جارحانہ اور قدرے بے تکلف طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔
(4) اٹھارہ سال کی عمر!:۔پانچواں مقبول عام اور دنیا بھر میں پھیلا ہوا وہم یہ ہے کہ اٹھارہ برس کی عمر میں مرد کی جنسی قوت چوٹی پر ہوتی ہے پھر اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے۔ خیر‘ اس میں شبہ نہیں کہ جنسی اشتعال والا مردانہ ہارمون اٹھارہ برس کی عمر کے لگ بھگ بہت زیادہ فعال ہوتا ہے۔ تاہم مرد کی جنسیت کا دارومدار محض عضویات پر نہیں ہے۔ اس میں کئی اور باتیں بھی اہم ہوتی ہیں۔ مثلاً یہ کہ وہ اپنے بارے میں ‘ اپنے ساتھی اور جنس کے متعلق کیسے محسوس کرتا ہے۔ اگر اس کے احساسات اور طرز فکر مثبت ہے‘ صحت مند ہے تو پھر اس کی کارکردگی برقرار رہتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ زیادہ عمر کا مرد اگر اچھی صحت کا مالک ہے‘ اپنے ازدواجی امور کو سمجھتا ہے اور اس کو محبت کرنے والی بیوی میسر ہے تو پھر زیادہ پر لطف ازدواجی تعلق کے لئے اس کی اہلیت اٹھارہ برس کے اس نوجوان سے بہتر ہو سکتی ہے جو جنس کو محض جسمانی فعل سمجھتا ہے۔
(5)چالاک عورتیں مردوں کو بے بس کر دیتی ہیں:۔ یہ چرچا آپ نے کئی بار سنا ہو گا بلکہ اس بارے میں کئی بے سروپا قصے بھی سنے ہوں گے کہ تیز و طرار اور خود مختار عورتیں مردوں کو عاجز کر دیتی ہیں۔ اس وہم کو دور کرنے کیلئے سب سے پہلے تو یہ بات جان لیجئے کہ عموماً عورتیں مردوں کی بے بسی کا باعث نہیں ہوا کرتیں‘ کسی مرد کی ازدواجی بے بسی کا سبب زیادہ تر اس کے اپنے وہم اور خوف ہوتے ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ مرد کے نقطہ ¿ نظر سے سب سے زیادہ متحرک ساتھی وہ عورت ہوتی ہے جو ازدواجی طور پر زیادہ فعال ہو ۔
(6) ازدواجی جارحیت:۔ یہ سمجھا جاتا ہے کہ ازدواجی فعل کے درمیان زیادہ جذباتی ہونا چاہیے۔ جسمانی اور جذباتی طور پر اس کو ہمیشہ زیادہ بھڑکانے والا ہونا چاہیے۔ اس عمومی وہم کے برخلاف سچی بات یہ ہے کہ صرف قصے کہانیوں اور فلموںمیں جنس ہمیشہ اس قسم کی ہوتی ہے۔ حقیقی زندگی میں وہ کبھی زیادہ اور کبھی کم جذباتی ہوتی ہے۔ کبھی تسکین دیتی ہے اور کبھی مایوس کرتی ہے۔
(7)ازدواجی تعلق کو بے ساختہ ہونا چاہیے:۔ ایک مفہوم میں ہم پہلے ہی کہہ چکے ہیں کہ ازدواجی تعلق کو بے ساختہ ہونا چاہیے۔ تاہم بہت سے لوگ اس سے مراد یہ لیتے ہیں کہ جنسی عمل کے بارے میں پہلے سے کوئی منصوبہ بندی نہیں کرنی چاہیے وگرنہ اس کا سارا مزہ کرکرا ہو جاتا ہے۔جنس کے ہمیشہ بے ساختہ ہونے پر اصرار کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ازدواجی تعلق بے ترتیب ہو کر رہ جائے گا‘ لہٰذا اس وہم سے نجات پالیجئے۔ بہر طور ہم یہ نہیں کہہ رہے کہ ازدواجی تعلق کیلئے کڑی اور بے لچک منصوبہ بندی کی جائے۔ اس کیلئے کوئی وقت طے کر دیا جائے اوراس میں کسی رد و بدل کی گنجائش نہ رکھی جائے تاہم یہ تو ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے ساتھی کی رفاقت کیلئے وقت طے کریں ۔
Ubqari Magazine Rated 4.0 / 5 based on 163
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں