ہفتہ واردرس سے اقتباس
جس رب نے ساری نعمتیں دی ہیں اور سارا نظام ہمارے موافق کر دیا ہے وہ چاہے تو حلق میں ایک چھوٹی سی چیز اٹکا دے کوئی اسے نکال نہ سکے اور چاہے تو ایسی مصیبت میں ڈال دے کہ کوئی اس کو سلجھا نہ سکے اور چاہے تو اتنا ذلتوں میں مبتلا کرے کہ اس کو کوئی عزت دے نہ سکے جو ساری کائنات کا خالق اور مالک ہے ‘ جس نے اتنی نعمتیں دی ہیں وہ کہتا ہے میرے بندے! میرے لئے بھی تیرے پاس کچھ وقت ہے؟ وہ سوال کرتا ہے مَا غَرَّکَ بِرَبِّکَ الکَرِیم اس کریم رب کو چھوڑ کر کس چیز نے تجھ کو دھوکے میں ڈال رکھا ہے؟ تو کس مصیبت میں پھنسا ہوا ہے؟ کریم رب کو چھوڑ کے تو کہاں بھاگ گیا؟ تو کہاں بھول گیا؟ میرے محترم دوستو! میرے رب نے مجھ پر اور آپ پر کتنا احسان کیا ....میں اسلام آباد مطب میں تھا ۔جمعہ کی نماز کے لئے نکلے تو سامنے ایک کوڑے والا کنٹینر پڑا ہوا تھا۔ ایک صاحب نے شاپر میں گندے ٹماٹر نکالے ہوئے تھے اور ایک دفعہ میں نے دیکھا کہ وہ اس کوڑے والے کنٹینر میں سے سینڈوچ نکال کرصاف کر رہاتھا۔ واہ کریم اس F10 کے اندر لوگ تو پانی بھی بوتلوں والا پیتے ہیں اور زندگی بھی ان کی حیرت انگیز اور عجیب ہے اور یہاں غربت کا تصور بھی نہیں ہے اور ایک وہ شخص بھی ہے جو گندگی کے ڈھیر میں اپنا رزق تلاش کر رہا ہے ۔تیری عظیم تقسیم ہے ۔میں نے آج ایک بچی کو دیکھا ایک پائپ کے ساتھ مقنا طیس باندھا ہوا تھا اور کوڑے کے ڈھیر پر اس کو ہلا رہی تھی کہ لو ہے کا کوئی ذرہ یا ٹکڑا اس مقناطیس کو لگ جائے اور اس کو بیچ کے شام کو اپنے پیٹ کی آتش بجھا لے۔ اللہ ہمیں ایسا کر سکتا ہے ‘کر سکتا تھا اور اب بھی کر سکتا ہے ۔میرے پاس تو اس طرح کے بہت سے لوگ آتے ہیں ۔ آ ج کی بات ہے کہ میں ایک جگہ گیا وہاں میں نے ایک لڑکا دیکھا تو وہاں کے صاحب مجھ سے کہنے لگا آپ اس کو جانتے ہیں مجھے یاد آیا یہ تو حاجی صاحب کا بیٹا ہے۔ اس لڑکے نے مدہم سی آواز میں کہا ہاں تو میرے سامنے ساری کہانی گھوم گئی۔ میں نے پوچھا تم یہاں کیا کر ر ہے ہو ؟تو وہ بولا ملازمت کر رہا ہوں۔میں نے کہا کہ تمہارے باپ کے سامنے تو سینکڑوں نوکر ہوا کرتے تھے ۔ اوہو! اللہ پاک نے سارے نظام کو اس کے موافق کیا ہوا تھا وہ موافق نظام مخالف کر دیا ۔میں اس حاجی صاحب کو جانتا ہوں۔ آج سترہ اٹھارہ سال ہو گئے ہیں مشکلات میں ایسے پھنسا ہے‘ حوادث در حوادث ہیں وہ بیٹا جو نازو نعم میں پلا تھا‘ جس کو نوکروں نے اٹھا اٹھا کے کھلایا تھا آج وہ مجھے اور سب کو چائے کی پیالیاں اور کرسیاں اٹھا اٹھا کے دے رہا تھا۔ زمانے کا نظام بدلا ہے میرے دوستو! جو دینا جانتا ہے وہ لینا بھی خوب جانتا ہے۔ یاد رکھنا میرے محترم دوستو! جو اللہ کی طرف رجوع کرنے والے ہیں‘ جو اللہ کی طرف ہر پل اپنے آپ کو پیش کرنےوالے ہیں اللہ انہیں بڑے بڑے حوادث سے بچاتا ہے۔ اللہ ان کی نسلوں کو پالتا ہے‘ اللہ ان کی نسلوں کے لئے خیرو عافیت کے دروازے کھو لتا ہے۔ خلیفہ عبد الملک بن مروان جب مرا تو اس نے اپنے ہر بیٹے کے لئے گیارہ گیارہ لاکھ درہم چھوڑے تھے اور جب عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو ہر بیٹے کے حصے میں صرف پونے دو درہم آئے تھے۔ لوگوں نے عمر رحمتہ اللہ علیہ سے کہاکیا ظلم کر کے جا رہے ہو؟دو سال تین ماہ حکومت کی ہے‘حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ نے کہا کہ میں نے لوگوں کا مال اپنے بیٹوں کو نہیں کھلایا.... میں نے ان کو تقویٰ دیا ہے ....میں نے ان کو رب کا نام دیا ہے۔ اگر ان کے اندر تقویٰ ہے‘ اگر ان کے اندر رب کا نام ہے تو اللہ انہیں غیب سے پالے گا ۔عےد کا دن ہے بچوں نے زرق برق لباس پہنا ہوا ہے لیکن امیر المو منین حضرت عمر رحمتہ اللہ علیہ کے بیٹوں کے پاس پیسے نہیں تھے کہ وہ لباس خرےدتے۔ بیت المال کے نگران کولکھا کہ اگر میری تنخواہ پہلے دے دیں تو بچوں کو لباس بنا دوں اس نے جواباً لکھ کے دیا اے امیر المومنین رحمتہ اللہ علیہ ! اپنی زندگی کے اتنے دنوں کی ضمانت دے دیں تو میں اتنے دنوں کی تنخواہ دے دیتا ہوں۔ بس رقعے کو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آئے اور وہیں رکھ دیا اور کہنے لگے میں زندگی کی ضمانت نہیں دے سکتا اور جب عےد کا دن آیاتو ان کے بچوں نے پھٹے پرانے لباس پہنے ہوئے ہیں اور امرا ءکے بچوں نے زرق برق لباس پہنے ہوئے ہیں اور وہ بچے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں اور یہ بچے عالم ماےوسی میں کھڑے ہوئے ہیں اور یہ شخص لوگوں سے عےد مل بھی رہا ہے اور اس کی آنکھوں میں آنسو ہیں اور جب یہ شخص گھر آیا تو اپنی بیٹےوں کو دیکھا کہ منہ کے آگے دو پٹہ رکھ کر باتیں کر رہی ہیں۔ پوچھا بیٹا یہ کیا؟ کہنے لگیں ابا جی کھانے کو کچھ نہیں تھا آج پیاز کھایا ہے اس لئے منہ سے بو آرہی ہے۔ رو پڑے اورکہنے لگے بیٹیو پریشان نہ ہو میں نے کسی کا مال چھین کر نہیں کھلایا میں نے تمہیں رب کا نام دیا ہے‘ رب کی عظمت دی ہے‘ اللہ جل شانہ ¾ کا تعلق دیا ہے‘ تم تسلی رکھو اللہ تمہارا اس دنیا میں ساتھی ہے‘ اللہ آخرت میں تمہارا ساتھ دے گا۔ حضرت عمر بن عبد العزیز رحمتہ اللہ علیہ فوت ہو گئے اب ان کے بعد جو خلیفہ بنے ہیں تو آ پ حیران ہوں گے کہ ان کے سامنے گورنری کے معاملے آئے مختلف علاقوں کے گورنر بنانے تھے تو اس نے کہا جو بنیاد عمر رحمتہ اللہ علیہ رکھ کر گئے ہیں تقویٰ کی اور ایمان کی اس بنیاد کو سامنے رکھ کر میں گورنر کا چناﺅ کروں گا۔ جب اس بنیاد کو سامنے رکھا گیا تو حشام کا کوئی بیٹا اس معیار اور کسوٹی پر نہ آیا اس معیار اور کسوٹی پرحضرت عمر رحمتہ اللہ علیہ کے سارے بیٹے آئے تھے ۔ اور سارے بیٹوں کو گورنر بنا دیا گیا اور ان میں سے ایک بیٹا کہتا ہے کہ ہم اگر ساری زندگی بھی گورنری کی سیاست کرتے تو ہم اس مقام تک نہیں پہنچ سکتے تھے ۔ صرف اللہ کے تعلق نے ہمیں اس مقام تک پہنچا یا ہے اور پھر عجیب باتیں کہتے تھے کہ ہم ڈرتے ہیں اس سفےدی سے اور اس پیلاہٹ سے یعنی چاندی اور سوناسے۔ اے چاندی! اے سونا ! مجھے دھوکے میں نہ ڈال اور ڈرتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے ہمارے باپ کو دھوکہ نہیں دیا تھا یہ ہمیں بھی دھوکہ نہ دیں کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم اس دھوکے میں آکے اپنی آخرت کو برباد کر جائیں۔ میرے محترم دوستو! جو ہر پل ہر لمحہ اپنی زندگی کے ایک ایک سانس کا حساب کرنے والا ہے اپنے سانس کو پھونک پھونک کر لینے والا ہے‘ اپنے قدم کو پھونک پھونک کر اٹھانے والا اور جو اٹھے ہوئے قدم کا بعد میں محاسبہ کرنے والا ہے توفرمایا اللہ قیامت کے دن اس کا حساب نہیں لے گا آج اس نے اپنا حساب کر لیا ہے آج وہ اپنا حساب کر رہا ہے اور حساب کرتا چلا رہا ہے ۔ارے دوستو! جس نے حساب نہ کیا قیامت کے روز وہ حساب کیسے دے سکے گا وہ یقینا حساب نہیں دے سکتا ۔ (جاری ہے)
Ubqari Magazine Rated 3.5 / 5 based on 144
reviews.
شیخ الوظائف کا تعارف
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔
مزید پڑھیں