اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں بلی حلال نہیں ہے لیکن اس کو پاکیزہ اورطاہر حیوانات میں شمار کیا جاتا ہے‘ جو بلیاں کسی کی ملکیت نہ ہوں اِنہیں پالنے میں کوئی حرج نہیں۔ جیسا کہ حدیث میں ہےسیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا:ایک عورت کو بلی کی وجہ سے عذاب ہوا، اس نے بلی کو قید کر کے رکھا یہاں تک کہ وہ مر گئی، پھر اسی بلی کی وجہ سے وہ جہنم میں گئی، جب اس نے بلی کو قید میں رکھا تو نہ کھانا دیا، نہ پانی اورنہ ہی اسے آزاد کیا تاکہ وہ خود کیڑے مکوڑے کھا کر گزارا کر لیتی (یعنی اس نے بلی کو تڑپا تڑپا کر مارا تھا اس لئے وہ جہنم میں گئی)۔(صحیح بخاری حدیث نمبر۲۳۶۵)۔ایک سائنسی اندازے کے مطابق، اِنسان نے بلی کودس ہزار سال پہلے سدھایا یا پالتو بنایاتھا۔ بلی آج کے دور میں سب سے عام پالتو جانوروں میں سے ایک ہے، افریقی جنگلی بلیوں کی کئی اقسام کو پالتو بلی کے آباؤاجداد سمجھا جاتا ہے۔بلیوں کو پہلے پہل شاید اس وجہ سے سدھایا گیا کہ یہ چوہے کھاتی تھیں اور اکثر اوقات جہاں اناج محفوظ کیا جاتا ہےوہاں انہیںپالاجاتا تھالیکن بعد ازاں ان کو انسان کے دوست اور پالتو جانور کے طور پر بھی پالاجانے لگا۔پالتو بلیوں کے جسم پر لمبے یا چھوٹے بال ہو تے ہیں، جن کی بنیاد پر ان کی اقسام اور نسلوں کا تعین کیا جاتا ہے۔آئیے!آپ کو وہ حدیث بتاتے ہیں جس میں بلی کے متعلق ذکر کیا گیا ہے، دوستو!روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ بلی اگر کھانے میں سے کچھ کھا جائے یا پانى پى جائے تو وہ پلید اور نجس نہیں ہو جاتا، کیونکہ (مشکوۃ شریف، جلد اول، حدیث ۴۵۳) کی حدیث مبارکہ ہےکہ:ایک عورت نے عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا کو ہریسہ بھیجا تو وہ نماز پڑھ رہى تھیں، اس عورت نے ہریسہ وہیں رکھ دیا، تو بلى آئى اور آکر اس میں سے کھا گئى، عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا نے نماز کے بعد اسى جگہ سے ہریسہ کھایا جہاں سے بلى نے کھایا تھا اور فرمایا:بلا شبہ رسول کریمﷺ کا فرمان ہے :یہ ( بلى ) پلید اور نجس نہیں، بلکہ یہ تو تم پر آنے جانے والیاں ہیں، حضرت عائشہ رضى اللہ تعالى عنہا بیان کرتى ہیںمیں نے رسول کریمﷺکو بلى کے بچے ہوئے پانى سے وضوء کرتے ہوئے دیکھا ہے اسی طرح ایک اور روایت میں ہے :کبشہ بنت کعب بن مالک جو ابو قتادہؓ کى بہو ہیں وہ بیان کرتى ہیں کہ ابو قتادہ رضى اللہ تعالى عنہ ہمارے گھر آئے تو میں نے ان کے وضوء کے لیے پانى برتن میں ڈالاتو بلى آئى اور اس سے پینے لگى، تو انہوں نے اس کے لیے برتن ٹیڑھا کر دیا حتى کہ اس نے پانى پى لیا،کبشہ بیان کرتى ہیں کہ انہوں نے مجھے دیکھا کہ میں ان کى طرف دیکھے جارہى ہوں تو وہ فرمانے لگے :کیا تم تعجب کر رہى ہو؟ تو میں نے جواب دیا:جى ہاں، تو وہ کہنے لگے :نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے :یہ نجس اور پلید نہیں، بلکہ یہ تو تم پر گھومنے پھرنے والیاں ہیں ۔(سنن ابوداؤد، جلد اول، حدیث ۷۴)۔۔۔دوستو! جہاں تک گھر میں بلی پالنے کاسوال ہےتو فقہا ء کا کہنا ہےگھر میں بلی پالی جا سکتی ہے،ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں،کیونکہ بلی نہ ہی موذی جانور ہے اور نہ ہی نجس ہے،ہر شخص کو معلوم ہے اس میں کوئی نقصان نہیں،بلکہ بلی گھر میں رکھنا فائدہ مند ہے، یہ گھر میں پیدا ہونے والے کیڑے مکوڑے،اور چوہے وغیرہ کھا جاتی ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں