داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ (پھلت):حضرت مولانا عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
اس لائن میں مہارت کی وجہ سے بچوں کے پورے پروگرام کی تیاری کی ذمہ داری آرٹ کی ایک ٹیچر کو دی گئی تھی‘ پروگرام میں علاقہ کی اہم ترین شخصیات کو مدعو کیا گیا تھا اور یہ پروگرام سکول کی ساکھ کا سوال بن گیا تھا‘ اس کیلئے دن رات محنت کرکے طلباء اور طالبات کو تیار کیا گیا تھا، ان پروگراموں میں طالبات کی ایک ٹیم کو ان کی ماؤں کے سامنے ایک نظم پیش کرنی تھی‘ یہ نظم بچوں اور ان کی ماؤں کے رشتہ اور ایک دوسرے کی حق ادائیگی کے سلسلہ میں بیداری پیدا کرنے کے لیے تھی‘ تیاری اور ریہرسل کے مختلف مراحل کے بعد بالآخر پروگرام کا دن آگیا‘ نظم شروع ہوئی مگر ان کی اس خوبصورت کارکردگی پر اس وقت پانی پھر گیا جب ایک بچی جو اپنی سہیلیوں کے ساتھ نظم پڑھ رہی تھی اچانک اپنے ہاتھ‘ جسم اور انگلیوں کو حرکت دینے لگی اور اپنا منہ کسی کارٹون کے کریکٹر کی طرح بنانے لگی‘ اس کی ان عجیب وغریب حرکتوں کی وجہ سے دوسری تمام بچیاں پریشان ہوگئیں۔
معلمہ کہتی ہیں: میرا جی چاہا کہ میں جاکر اس بچی کو ڈانٹ پلاؤں اور اسے تنبیہ کروں کہ وہ ڈسپلن اور سنجیدگی کا مظاہرہ کرے‘ مجھے اس پر اتنا غصہ آیا کہ قریب تھا کہ میں اسے سختی کے ساتھ ان بچیوں سے کھینچ کر الگ کردوں لیکن جوں جوں میں اس کے قریب جاتی ‘وہ پارے کی طرح چھٹک کر مجھ سے دور ہوجاتی اس کی یہ حرکتیں بڑھتی گئیں اور وہ سارے لوگوں کی نظر کا مرکز بن گئی‘ وہاں موجود تمام خواتین اس کی حرکتوں پر زور زور سے ہنس رہی تھیں۔میری نظر پرنسپل پر پڑی جن کی پیشانی مارے شرمندگی کے پسینہ سے شرابور تھی وہ اپنی سیٹ سے اٹھیں اور مجھ سے کہنے لگیں: اس بدتمیز اور بیہودہ لڑکی کو سکول سے نکالنا ضروری ہے میں نے بھی ان کی اس بات کی تائید کی لیکن ایک چیز نے ہم سب کی نظروں کومتوجہ کیا کہ اس پورے وقفہ میں بچی کی ماں کھڑی ہوکر اپنی بچی کی ان حرکتوں پر تالی بجاتی رہی۔ گویا وہ اس کی حوصلہ افزائی کررہی تھی کہ وہ اپنا یہ فضول کام جاری رکھے۔
جیسے ہی نظم ختم ہوئی میں جلدی سے اسٹیج کی طرف بڑھی اور اس لڑکی کو زور سے پکڑ کر کھینچا اور بولی: تم نے اپنی سہیلیوں کے ساتھ نظم پڑھنے کے بجائے اول جلول حرکتیں کیوں کیں؟وہ بولی: اس لیے کہ پروگرام میں میری ماں بھی موجود تھی‘ مجھے اس کے اس ڈھٹائی بھرے جواب پر بڑی حیرت ہوئی لیکن مجھے اس وقت بڑا دھچکا لگا جب اس نے آگے یہ کہا: میری ماں بول اور سن نہیں سکتی‘ میں نے گونگوں کی زبان میں اس نظم کا ترجمہ اپنی ماں کے لیے پیش کیا تاکہ دیگر تمام بچیوں کی ماؤں کی طرح میری ماں بھی اپنی بیٹی کی کارکردگی پر خوشی کا اظہار کرسکے۔جیسے ہی اس نے یہ وضاحت کی وہ دوڑ کر اپنی ماں کی طرف بڑھی اور اس کے گلے لگ کر زارو قطار رونے لگی‘ وہاں پر موجود سارے لوگوں کو جب یہ حقیقت معلوم ہوئی تو سارا ہال سسکیوں سے گونجنے لگا۔
واقعہ کا سب سے خوبصورت پہلو یہ ہے کہ پرنسپل نے اس لڑکی کو سکول سے نکالنے کے بجائے انعام سے نوازا اور اسے ’’مثالی طالبہ‘‘ کا خطاب دیا۔ وہ لڑکی جب وہاں سے نکلی تو سر اٹھا کر خوشی سے اچھلتے ہوئے جارہی تھی۔منفی سوچ کے اس وبائی دور میں جہاں کسی خیر کو تلاش کرنے اور خیر کو دیکھنے کا قحط سا ہے‘ زندگی کے کتنے مراحل میں ہم اپنی منفی سوچ کی وجہ سے اللہ کی کائنات میں اور اپنے گردونواح اور اہل تعلق میں خیر دیکھنے سے محروم رہتے ہیں اور جلدبازی میں منفی ردعمل ظاہر کرکے کتنے خوبصورت رشتوں اور تعلقات کے خزانوں سے محروم ہوجاتے ہیں۔اس لیے جلدبازی میں ردعمل ظاہر مت کیجئے دوسروں پر حکم لگانے میں جلدی سے کام مت لیجئے۔ محض بدگمانی کی بنیاد پر ہم ایک دوسرے سے نفرت کرتے ہیں‘ ملنا جلنا کم کردیتے ہیں‘ رشتے ختم کرلیتے ہیں‘ اللہ سے لوگوں کے ساتھ حسن ظن کی توفیق مانگئے کہ اسی میں دلوں کا سکون اور سینوں کی سلامتی ہے۔ کاش ہمیں زندگی کا یہ خوبصورت راز معلوم ہوجائے!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں