داعی اسلام حضرت مولانا محمد کلیم صدیقی مدظلہ (پھلت):حضرت مولانا عالم اسلام کے عظیم داعی ہیں جن کے ہاتھ پر تقریباً 5 لاکھ سے زائد افراد اسلام قبول کرچکے ہیں۔ ان کی کتاب ’’نسیم ہدایت کے جھونکے‘‘ پڑھنے کے قابل ہے۔
ٹرین میں افطار کا وقت ہوگیا تو ہم نے رفقاء کے ساتھ افطار کیا اور مغرب کی نماز ادا کی ٹرین میں بہت بھیڑ تھی‘ سامنے کچھ کھدر پوش لیڈر ٹائپ لوگ بھی بیٹھے تھے‘ معلوم ہوا کہ لکھنو میں آج کانگریس پارٹی کی ایک ریلی ہے اسی میں یہ لوگ جارہے ہیں‘ نماز سے فارغ ہوکر ہم لوگوں نے کھانا نکالا اور سیٹ پر اخبار بچھا کر کھانا کھانے کیلئے رفقاء کے ساتھ بیٹھ گئے، سامنے بیٹھے ہوئے لوگوں سے انسانی رواداری کے لحاظ سے یوں ہی اس حقیر نے کہا آئیے، جناب کھانا کھالیجئے، سامنے کے ایک کھدر پوش جن کے بارے میں بعد میں معلوم ہوا کہ وہ پیشہ سے وکیل ہیں، انہوں نے کہا جی ضرور، اور یہ کہہ کر اوپر والی برتھ سے اپنے بیگ سے ٹفن نکال کر بیٹھ گئے اور میری پلیٹ میں جس میں بھنا ہوا قیمہ نکلا ہوا تھا، اپنی سبزی نکالی اور ساتھ میں کھانے لگے، بڑی محبت سے بولے، ساتھ رہنا اور ساتھ کھانا، مسلسل وہ بڑی اپنائیت اور محبت کی باتیں کرتے رہے، دوسرے لوگوں کو بھی ہم نے کھانے کو کہا وہ سب لوگ بھی اپنے ناشتہ دان نکال کر کھانا کھانے لگے کھانے کے بعد چائے والا آگیا ہم نے سب کے لیے چائے لی، اور چائے پینے لگے، چائے پیتے ہوئے وکیل صاحب بولے، جی مولانا صاحب آج کل رمضان چل رہے ہیں نا، مجھے تو بہت اچھا لگتا ہے رمضان کا مہینہ، سحری افطار اور راتوں کو گائوں میں بہت رونق رہتی ہے۔
میں تو سال بھر انتظار کرتا ہوں، کب رمضان آئیں گے اور گائوں میں رونق ہوگی، کہنے لگے، لوگ تو عید کے دن خوشی مناتے ہیں مگر مجھے تو بور سا لگتا ہے کہ یہ ساری رونق اب سال بھر کے لیے ختم ہو رہی ہے، مزے مزے میں وکیل صاحب اپنے ساتھی سے معلوم کرنے لگے، رام کمار تمہیں معلوم ہے کہ روزے کیوں رکھے جاتے ہیں، اس نے جواب دیا کہ جیسے ہمارے برت، ایسے ہی مسلمانوں کے روزے، وکیل صاحب نے لعن طعن کرنا شروع کردیا کیا تمہارے گائوں میں مسلمان نہیں رہتے؟ اس نے کہا ہاں رہتے ہیں تو وکیل صاحب بولے تم اپنے مسلمان بھائیوں کا کیا حق ادا کرو گے جب تمہیں ان کے نماز روزہ کے بارے میں بھی معلوم نہیں، برابر والے کیبن کے مسافر بھی بات سن کر جمع ہوگئے، وہ ایک ایک کرکے سب سے پوچھتے رہے، سب نے وہی بات کہی جو رام کمار نے کہی تھی وہ روزہ کی حقیقت نہ معلوم ہونے پر سب کو شرمندہ کرتے رہے اس حقیر نے ان سے عرض کیا کہ آپ کو تو معلوم ہوگا کہ روزے کیوں رکھے جاتے ہیں۔ وہ بولے مجھے کیوں نہ معلوم ہوگا میں تو آدھا مسلمان ہو ں، میں نے عرض کیا کہ مسلمان تو آدھا ہونا ٹھیک نہیں، مسلمان کہتے ہیں ہر سچی بات کو ماننے والا، اور اپنے مالک کے سامنے سرتسلیم خم کرنے والا آدھا مسلمان تو نہیں ہونا چاہیے مسلمان تو پورا ہی ہونا چاہیے پھر بھی آپ بتائیے کہ روزے کیوں رکھے جاتے ہیں؟ میری قیمہ کی پلیٹ میں اپنی سبزی نکال کر میرے ساتھ کھانا کھانے والا، سال بھر رمضان کی رونق کا انتظار کرنے والا اور گویا اسلام پر اپنے کو پی ایچ ڈی سمجھنے والا اس نے روزہ کے بارے میں بتانا شروع کیاتو میں کانپ کر رہ گیا‘ ایسی بات کہ یہاں لکھنا بھی گوارا نہیں۔
وکیل صاحب سے سنی ہوئی روزہ کی تاریخ جب اس حقیر کو یاد آتی ہے تو اپنی دعوتی غفلت پر پانی ہونے کو دل چاہتا ہے اور اپنے علماء کے اس خیال پر حیرت ہوتی ہے کہ دعوت کی اتمام حجت ہوگئی، حق کیا ہے سب کو معلوم ہوگیا۔ میدان دعوت میں جب برادران وطن کے درمیان جانا ہوتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ دین اسلام کی بنیادی چیزوں کے بارےمیں بھی کتنی غلط واقفیت ہے، کتنا سنہرا موقع ہو اگر افطار کے وقت مسجد نبویؐ کی طرح اپنی مسجدوں کے دروازے غیر مسلموں کے لیے کھول کر انہیں مدعو کیا جائے اور ہدایت کے نصاب کے نزول کے اس مبارک مہینے میں قرآن کے حامل اپنے برادران وطن میں اسلام کی بنیادی چیزوں کے تعارف کی کوشش کی جائے کم از کم روزہ‘ نماز‘ عید بقر عید جیسی ان کے سامنے ہونے والی عبادات اور موقع کے بارے میں ان کو بتایا جائے۔ کاش ہم اپنی ذمہ داری کو سمجھتے!!
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں